william wali novel by noor rajpoot

episode 3 part 2

#ولیم_ولی (معرفت اور محبت ہر کسی کو نہیں ملتی)

#قسط_نمبر_3#پارٹ2

#نور_راجپوت

فجر معراج کی زندگی تین دن کے اندر تین سو ساٹھ ڈگری پر گھوم چکی تھی۔ دل ٹوٹا تھا، مان ٹوٹا تھا، جان سے پیارے شخص نے ہاتھ چھڑا لیا تھا اور تو اور ایک اجنبی شخص اُسکے ساتھ جڑ چکا تھا جسکے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ سارے خسارے سمیٹ لینے کے بعد وہ اب شکستہ سی اپنے گھر کے پرانے ٹوٹے پھوٹے لوہے کے گیٹ پر کھڑی تھی۔ بند جوتے کیچڑ میں بھر چکے تھے۔ سفید کپڑے داغ دار تھے اور اُسکی روح بھی تو ایسے ہی داغ دار تھی۔ گھائل تھی۔ اس نے گیٹ بجایا اور پھر بازو ڈھلکا کر کھڑی رہی۔ رم جھم کرتی بارش اب مزید ہلکی ہوگئی۔ کچھ دیر بعد گیٹ کے دوسری جانب اماں کی چاپ ابھری۔ ابا تو اپنی کمزوری اور بیماری کے باعث مشکل ہی چل پاتا تھا۔ سارا دن بستر پر گزرتا۔

کنڈی کھلنے کی آواز ابھری اور پھر دروازہ کھل گیا۔ وہ یونہی کھڑی رہی۔ اماں نے غضبناک نظروں سے اسے دیکھا۔ اماں کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن فجر کی حالت نے انہیں لب بھینچنے پر مجبور کردیا۔ وہ کھڑی تو اپنے گھر کی دہلیز پر تھی پر ذہنی طور پر جانے کہاں تھی۔

”اب کیا کھڑی کھڑی جم گئی ہو؟؟“ اماں نے بازو پکڑ کر اسے کھینچا اور وہ کسی خواب سے جاگی۔ اماں اب دروازہ بند کرکے دوبادہ کنڈی لگا رہی تھی۔ گھر کے صحن میں مٹیالی سی روشنی تھی۔ گھر ویسا ہی تھا اماں ویسی ہی تھی پھر سب بدلا بدلا کیوں لگ رہا تھا؟؟

”کہاں تھی اب تک؟؟ میں نے کہا تھا نا گھر واپس جلدی آنا۔۔“ اماں میں اتنی ہمت پتا نہیں کہاں سے آئی تھی کہ اماں نے اُسے گردن سے دبوچ لیا۔ سرسراتی ہوا سرگوشیاں کرتی گزر گئی۔

”سارا دن بلقیس تیرا انتظار کرکے چلی گئی تو نے میری ناک کٹوادی فجر۔۔“ اماں نے اُسے پوری قوت سے دھکا دیا وہ جو حملے کے لیے تیار نہیں تھی، توازن بگڑا اور نیچے جاگری کہنی چھل گئی۔سیاہ بادلوں سے ڈھکے آسماں کے نیچے وہ گیلے مٹی والے صحن میں وہ دھڑام سے گری تھی۔ اگلے ہی پل اماں اس کے سر پر تھی۔ اماں نے اسے بالوں سے پکڑا اورجھٹکے سے اسکا منہ اوپر کیا، جبڑے دبوچ لیے۔ فجر کے سپاٹ چہرے پر بارش کی ننھی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں۔

”میں نے کہا تھا یہ تیرا آخری موقع ہے فجر اس کے بعد کچھ نہیں۔۔۔“ اماں کے جھریوں زدہ چہرے پر طیش ہی طیش تھا۔ اسکی بوڑھی ہڈیوں میں جان تھی۔ وہ فجر کو گلا دبا کر مار سکتی تھی پر اسکی سزا اس سے بڑی تھی جو انہوں نے سوچ لی تھی۔

”تجھے اب وہ کرنا ہے جو میں کہوں گی چل دفع ہو اندر۔۔“ اماں نے زودار جھٹکا دیا اور فجر نے دانت بھینچ لیے۔ وہ کچھ نہ بولی۔ اتنی سی مار تو اسے اکثر پڑتی رہتی تھی۔ اماں ہانپتی اندر چلی گئی جبکہ کئی لمحے وہیں بیٹھی رہی پھر بیگ پکڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔گندے ہوچکے ہاتھ کپڑوں سے صاف کیے۔ زبان بند تھی لیکن کندھے اکڑے ہوئے تھے۔ آخر کو جو اس نے کرنا تھا وہ کرچکی تھی۔ اماں اب اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی۔

بیگ اٹھاتے وہ اپنے کمرے میں آئی۔ شال اتار کر پھینک دی۔ کہنی کو نہیں دیکھا۔ بیگ بیڈ پر پھینک دیا۔ پاؤں جوتوں سے آزاد کیے اور پھر جھک کر بیڈ کے نیچے سے ایک کارٹن (ڈبہ) نکالا۔ اماں اب اپنے کمرے میں غصے سے بولے گئی۔

”تاریخ طے کردی ہے میں نے وہ لوگ اگلے جمعہ کو آئیں گے اور اسے لے جائیں گے۔۔“ وہ اونچا اونچا اسے ہی سنا رہی تھی۔ جبکہ فجر سپاٹ چہرہ لیے الماری سے ارسل کی دی ساری چیزیں نکال رہی تھی۔ کچھ کپڑے، کچھ جوتے، کچھ اور سامان جسے وہ اب نیچے کارٹن کے پاس پھینک رہی تھی۔ کمرہ ٹھنڈا تھا۔ یوں جیسے بارش باہر نہیں اندر برستی رہی ہو اور وپ ننگے سر ننگے پاؤں کسی پاگل کی طرح چیزیں پٹخ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ زمین پر دوزانوں بیٹھی تھی اور ارسل سے جڑی ہر چیز ہر یاد اس کارٹن میں ڈال رہی تھی۔ اماں اب خاموش تھی اور پھر کچھ دیر بعد وہ دروازے پر نمودار ہوئی۔ کریم رنگ کے، مرینا کا پرانا گرم سوٹ پہنے، اماں کی سانولی رنگت واضح تھی۔ جھریوں زدہ چہرے پر جلال تھا، اندر کو دھنسی آنکھیں، جن میں سے ایک میں موتیا اتر آیا تھا، حدر درجہ طیش تھا۔ وہ خود پر قابو پانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔ اماں کے ہاتھ میں کاغذ تھا جسے اماں نے اسکے قریب آتے اسکے منہ پر مارا۔

”اگلے جمعے کو تیرا نکاح ہے۔ آج سے تیرا باہر آنا جانا بند بلقیس کو میں زبان دے چکی ہوں۔۔“ فجر نے نہ اماں کو دیکھا اور نہ اس کاغذ کو جس پر دن تاریخ لکھی تھی۔

وہ خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی۔ اماں واپس پلٹی۔

”اسکی ضرورت نہیں ہے اماں میں یہ نکاح نہیں کروں گی۔“ اسکی اتنی مجال؟؟ اماں جھٹکے سے مڑی۔

”نکاح تو تجھے کرنا پڑے گا فجر نہیں تو موت تیرا مقدر ہوگی۔“ حکم صادر ہوا۔

”میرا نکاح ہوچکا ہے اور موت بھی قبول کرلی میں نے۔۔“ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بم گرایا گیا۔ اماں ساکت رہ گئی۔ موت جیسی خاموشی چھاگئی۔ اماں نے غور سے اُسے دیکھا جو اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔ اُس پر کسی پاگل کا گمان ہوا۔ وجود ڈھیلا تھا۔ جسم یہاں تھا دماغ کہیں دور۔

اور روح؟؟ وہ تو جیسے تھی ہی نہیں۔

وہ ہاتھ بڑھا کر ایک چیز اٹھاتی اور اپنے سامنے رکھے ڈبے میں ڈال دیتی۔ یوں جیسے ان چیزوں سے جڑی یاد کو دفنا رہی ہو۔ ہونٹ نیلے تھے۔ ہاتھ پاؤں بھی۔ چہرہ سفید تھا لٹھے کی مانند اور سفید کپڑے صحن میں گرنے کے باعث مزید گندے ہوچکے تھے۔ وہ اس پل اماں کو زندہ لاش لگی۔

”کیا بکواس کر رہی تو فجر؟؟“ اماں نے سینے پر ہاتھ رکھے پوچھا۔ فجر سے کچھ بھی توقع کیا جاسکتا تھا۔ اس جیسا انا پرست شاید ہی کوئی تھا۔

”بکواس نہیں ہے اماں۔“ وہ ہولے سے بولی اور پھر گھٹنوں کے بل اونچا ہوتے، ہاتھ بڑھا کر بیڈ سے بیگ اٹھایا۔ اسکی زپ کھولی اور اندر سے ایک کاغذ نکالا یہ صرف کاغذ نہیں نکاح نامہ تھا۔

”یہ دیکھ یہ میرا نکاح نامہ ہے۔“ اماں کے قدم لڑکھڑا گئے۔ منہ حیرت سے کھل گیا۔ آنکھوں میں بےیقینی ا ُبھری۔ وہ فجر کو بےیقینی سے تکتی رہی۔

”لے نا اماں پکڑ۔ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ فجر اب شادی شدہ ہے۔“ انداز سرار مزاق اڑانے والا تھا۔ اپنا مزاق اماں کا مزاق سب کا مزاق۔

اماں نے مشکل سے قدم اٹھایا اور پھر کپکپاتے ہاتھوں سے وہ کاغذ پکڑا۔ دل جیسے ہزار کی رفتار پر دھڑک رہا تھا۔

”جا ابا کو دکھا دے اور اسے بتا دے میں نے وہی کیا ہے جو اورنگزیب کی بیٹی نے کیا تھا۔“ وہ کتنی پرسکون تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ پھر واپس بیٹھ گئی۔ اس بار اپنے بیگ سے وہ ٹیپ جو ولیم نے دی تھی نکالی اور ڈبے میں پھینک دی۔ اماں نے کپکپاتے ہاتھوں سے کاغذ کھولا جانا پہچانا لگا۔ پھر وہ تیزی سے باہر نکلی تاکہ ابا کو دکھا سکے۔ اماں کو پڑھنا نہیں آتا تھا۔

”فجر کے ابا یہ دیکھ یہ کیا ہے۔۔؟؟“ آنکھوں میں بےتحاشہ خوف تھا۔ دل لرز رہا تھا۔ انہونی کا خوف!

”یہ نکاح نامہ ہے ابا میں نے شادی کرلی۔۔۔“ وہ زور سے بولی۔ اب کی بار اسکے چہرے پر مسکان تھی۔ کمینی سی مسکان۔ زخمی سی مسکان۔

”پتا ہے میں نے شادی کس سے کی ہے؟؟“ وہ ابا تک اپنی آواز پہنچا رہی تھی۔ ابا کی کوئی آواز نہ ابھری۔ وہ بڑی مشکل سے اٹھ کر بیٹھا اور پھر کپکپاتے ہاتھوں سے نکاح نامہ کھولا۔

”ابا میں نے ایک انگریز سے شادی کرلی۔ کورٹ میرج۔ کوٹ میرج کا پتا ہے نہ تجھے۔۔۔؟؟“

وہ اب بھی ویسے ہی بیٹھی تھی۔ ٹھنڈی زمین پر گھٹنے موڑے۔ اس پل اس پر کسی پاگل کا گمان ہورہا تھا۔ باہر صحن میں اندھیرا جیسے گہرا ہوگیا۔ سیاہ پر پھیلائے بدقسمتی وارد ہونے لگی۔

ہاں وہ نکاح نامہ ہی تھا۔ ابا نے اپنے سینے میں چبھن سی محسوس کی۔ انہونی کا احساس ہوا اور اگلے ہی پل جب ابا نے دلہے کا خانہ دیکھا تو نکاح نامہ انکے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ولیم جوزف کا نام واضح لکھا تھا۔ وہ سچ کہہ رہی تھی۔

ابا واپس گرگیا جبکہ اماں نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ کا گلا گھونٹا۔

”فف۔۔۔فجر کی ماں۔۔۔۔“ ابا نے بےیقینی سے اماں کو دیکھا اور اماں کے وجود میں جیسے ہلچل ہوئی۔ انہوں نے وہ نکاح نامہ فٹافٹ اٹھایا اور تیزی سے کمرے سے نکل کر باورچی خانے میں گھس گئی۔ سانپ گزر گیا تھا اور وہ لکیر مٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اگلے ہی پل انہوں نے نکاح نامہ کو انگیٹھی میں رکھا اور کپکپاتے ہاتھوں سے ماچس اٹھائی ماچس گرگئی۔ پھر سے ماچس اٹھا کر تیلی نکالی۔ وہ اب تیلی جلانے کی کوشش کر رہی تھی وہ بہت جلدی میں تھی تاکہ فجر کی اس غلطی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹایا جا سکے کسی کو پتا لگنے سے پہلے۔

”ابا اورنگزیب کی بیٹی مرگئی تھی نا۔ دیکھ میں زندہ ہوں۔۔۔“ وہ پاگلوں کی طرح بولے جارہی تھی۔ تیلی جلی اور نکاح نامے کو آگ نے پکڑ لیا۔ اماں کے اندر طیش اٹھا انہوں نے چاروں طرف نظریں اور پھر لکڑی کا روٹیوں والا بیلن نظر آگیا اگلے ہی پل وہ بیلن اٹھاتی فجر کے کمرے کی جانب بڑی۔

”میں تو زندہ ہوں پر سب ختم ہوگیا ابا۔ میں بھی ہار گئی تو بھی ہار گیا اماں بھی ہارگئی۔سب ہار گئے۔۔“ وہ استہزائیہ ہنسی۔ اماں کسی پاگل جنونی کی طرح اسکے سر پر پہنچ چکی تھی۔

”تجھے لگتا ہے تو جیت گئی؟؟ تجھے لگتا ہے تو جیت جائے گی۔؟؟“ اماں نے پوری وقت سے بیلن اسکے کندھے پر دے مارا۔ فجر کی کراہ ابھری پر وہ ہلی نہیں۔ زبان دانتوں تلے دبا لی۔ ہاں شاید یہ جسمانی تکلیف ہی اندرونی تکلیف کو کم کرپاتی۔ اماں کو روکا نہیں۔

”کیوں کیا تو نے ایسا فجر کیوں کیا۔۔؟؟“ اماں نے ایک اور کاری وار کیا۔ وہ تکلیف سے جھک گئی۔ پر بیٹھی رہی۔ آنکھوں کے سامنے ارسل کا مسکراتا چہرہ اُبھرا۔ وہ اسکے سامنے انگوٹھی رکھ رہا تھا۔

”یہ سب کرنے سے پہلے تو مرجاتی فجر۔۔۔“ اماں نے تیسرا وار کیا۔ ارسل اب اپنے ماں باپ کے ساتھ اندر آرہا تھا۔

”تو کسی گاڑی کے نیچے آکر مرجاتی فجر تو آج واپس ہی نہ آتی۔۔“ کمر پر لگنے والا بیلن زوردار تھا۔ ضبط کے مارے فجر کا چہرہ سرخ پڑگیا۔ آنکھیں بھرنے لگیں۔

وہ اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا رہا تھا۔

”فجر اللّٰہ نے تجھے غرق کیوں نہیں کیا۔ تو مرجاتی فجر تو مرجاتی۔۔“ اماں اب اسے مارے جارہی تھی۔ بیلن کہاں لگ رہا تھا اسے کتنی تکلیف ہورہی تھی اماں کو کچھ فرق نہیں پڑتا تھا۔ فجر نے جو قدم اٹھایا تھا وہ سزائے موت کی حقدار تھی۔ اس نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ دانتوں تلے دبی زبان زخمی ہوگئی۔ آنکھوں سے آنسوں بہہ نکلے۔

وہ پاؤں چھڑاتا جارہا تھا۔

”بول تونے یہ کیوں کیا؟؟ بول فجر بول۔۔ “ اماں چاہتی تھی وہ بولے۔ وہ مار مار کر تھک گئی تھی پر فجر ڈھیٹ بنی بیٹھی رہی۔

”اماں۔۔۔“ دل درد سے پھٹنے کو تیار تھا۔ اسکی پکار میں اتنی تکیلف تھی کہ اماں نے ایک پل کو محسوس کی پر رُکی نہیں۔ باہر ٹھٹھرتی رات نے محسوس کی اور رات بےزبان سی رودی۔

”اماں ارسل نے چھوڑ دیا۔“ سینہ اب زمین پر ٹکے گھٹنوں سے جالگا۔ درد ہی درد تھا۔ آہ بکا تھی۔

اسے ٹھکرا دیا گیا تھا اور انسان سب برداشت کرلیتا ہے اپنا رد ہونا نہیں اپنا ٹھکرایا جانا نہیں۔ اس لیے تکلیف حد سے سواء تھی۔

”میں نے تو بس محبت کی تھی۔ گناہ تو نہیں کیا تھا۔ تو نے مجھے بددعائیں دیں۔“ وہ اب سسک رہی تھی۔ تڑپ رہی تھی۔

”اس نے ہاتھ چھڑا لیا ام۔۔۔ما۔۔۔اماں۔۔۔“ الفاظ ٹوٹنے پھوٹنے لگے۔

”مم۔۔۔میں نے اس کو آزاد کردیا۔۔۔“ آواز آہستہ ہوگئی۔ پر اماں نہ رکی۔ اسے لگ رہا تھا فجر کی کوئی ہڈی ٹوٹے نہ ٹوٹے پر اُنکا اپنا ہاتھ ٹوٹ جائے گا۔

”ارسل۔۔۔“ وہ حلق کے بل چلائی۔ گردن کی نسیں ابھر گئیں۔ضبظ ٹوٹ گیا۔ تکلیف بہہ نکلی۔ آخری بار اُسکا نام لیا گیا۔ آخری بار اُسے پکارہ گیا۔ اور اماں نے بیلن پوری قوت سے گردن کے نچلے حصے پر دے مارا۔

انسان کبھی نہ رونے کے لیے ایک بار ضرور روتا ہے اور یہ آنسوں وہ آخری آنسوں تھے جو وہ بہا رہی تھی۔ اُس سے دستبردار ہوچکی تھی معاف نہیں کیا تھا۔ اُسکا دیا زخم ناسور بنتا جارہا تھا اور تب تک رہتا جب تک وہ اُسے معاف نہ کردیتی اور بیچ راستے میں چھوڑنے والوں کو معافی نہیں ملتی۔ جس نے چھوڑا ہو وہ سکون سے نہیں جی پاتا اور جسے چھوڑا جائے اسکا مقدر تو بس تڑپنا ہوتا ہے۔

بیلن چھوٹ کر گیا اماں ہانپتے ہوئے ہٹ گئی۔ آج سارا غصہ نکال لیا تھا ساری وحشت اماں نے اُسکے وجود پر اتاری تھی۔ آوازیں یقیناً محلے والوں نے سنی ہونگی۔ پر جو ہونا تھا ہوچکا تھا۔ اماں کمرے کی دہلیز میں بیٹھی رو رہی تھی۔ فجر نے انہیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ بلقیس کو دی گئی زبان ایک بار پھر ٹوٹ گئی تھی۔

جبکہ دوسرے کمرے میں بستر پر پڑا ابا کا وجود کپکپارہا تھا۔ وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر بولنے کی کوشش میں تھا پر الفاظ حلق میں ہی پھنس گئے۔ آنکھیں ابل آئیں، ابا کے سرہانے کھڑی منار ہنس رہی تھی۔ ابا پر قہقہے لگا رہی تھی۔

”تو ہار گیا ابا۔۔۔تو ہار گیا۔۔۔“ وہ ابا کا مزاق اڑا رہی تھی۔ ابا نے منہ کھول کر سانس لینا چاہا پر نہیں آیا۔ ابا نے چاروں طرف گہرا اندھیرا چھاتا محسوس کیا۔ وجود کو ایک آخری جھٹکہ لگ اور پھر ساکت ہوگیا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں میں بےیقینی رقم رہ گئی۔

اماں کمرے کی دہلیز پر سر پکڑے بیٹھی رو رہی تھی جبکہ زمین پر پڑا فجر کا وجود اب ساکت تھا۔

کبھی کبھی قیامت خاموشی سے آتی ہے اور گزر جاتی ہے کسی کو احساس تک نہیں ہوتا۔ معراج الدین کے گھر میں بھی ایسی ہی ایک قیامت آکر گزر چکی تھی اور کسی کو جیسے خبر تک نہ ہوئی تھی۔

✿••✿••✿••✿

”فجر۔۔۔“ رات کے اس پہر اپنے گھر کے عالیشان میں کمرے میں، نرم گرم قالین پر بیٹھا ارسل زیرلب بڑبڑایا۔ اسکی آنکھوں میں آنسوں تھے۔

کیا اس نے سچ کہا تھا؟ کیا ایک ہی دن میں اسکی شادی بھی ہوگئی تھی؟؟ کیا سچ میں اس نے فجر کو ہمیشہ کے لیے گنوا دیا تھا؟؟ ہزاروں سوال کسی اژدھے کی طرح ڈسنے لگے۔

اسکا پاؤں پکڑنا یاد آیا اور اپنا چھڑا لینا۔

اسکا تڑپ کر اپنی جانب بڑھنا یاد آیا اور گارڈز کا اسے دھکے دے کر باہر نکالنا۔

لٹی پٹی سی حالت لیے کمرے میں سوگ مناتا ارسل برہان اس وقت بے طر ح تڑپ رہا تھا۔ اسے برا لگتا تھا جب کوئی فجر کا کوئی کلاس فیلو اسے میسج بھی کرلیتا تھا۔ جب وہ کسی کا کام کردیتی تھی۔ جب کوئی کولیگ اسے سوشل میڈیا پر فالو کر لیتا تھا اسے سب زہر لگتے تھے وہ کسی کو فجر کے ساتھ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ پھر خود کیسے اتنی آسانی سے گنوادیا؟؟

کیا وہ مزید ضد نہیں کر سکتا تھا؟ کیا خاندان زیادہ اہم تھا؟؟ اسے ہمیشہ عزت اور ادب سکھایا گیا تھا۔ اسے بتایا گیا کہ جو برہان گردیزی نے کہہ دیا وہ پتھر پر لکیر اسے ویسا ہی کرنا تھا پھر محبت کیوں اپنی مرضی سے کرلی تھی۔ کرلی تھی تو کھڑا کیوں نہیں ہو پایا؟؟ وہ کسی اور کی ہوچکی تھی کسی اور کی وائف تھی۔ ارسل نے اپنے بال نوچ ڈالے۔ آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔

وہ تو ہمیشہ اسکا انتظار کرنے کا کہتی تھی کیوں اس نے ایک ہی رات میں شادی کرلی تھی؟؟

وہ جو خود کو اسکے نام لکھ چکی تھی کیسے کسی اور کا نام اپنے ساتھ جوڑ لیا تھا؟؟

غصہ آرہا رونا آرہا تھا۔بےبسی سی بےبسی تھی۔ دل کو کسی کروٹ آرام نہیں تھا۔ وہ اسے فون کر رہا تھا پر نمبر بند جارہا تھا۔ وہ کبھی ایک گھنٹے کے لیے بھی ناراض نہیں رہی تھی پھر اب کیسے تعلق ختم کرلیا تھا؟؟

گہرا پچھتاوہ تھا اور ارسل برہان کے پاس اب بس یہی بچا تھا اور اسے ارسل برہان کو ساری عمر جھیلنا تھا۔

✿••✿••✿••✿

رات کے ساڑھے نو بجے کا وقت تھا۔ گاڑی تیزی سے بھیگی کشادہ شاہراہ پر آگے بڑھ رہی تھی۔ گاڑی میں تیز میوزک بج رہا تھا اور جنید ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا گاڑی چلا رہا تھا جبکہ ولیم ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا۔ فجر کو چھوڑنے کے بعد وہ نکاح نامہ کے لے کر سیدھا وہاں گیا تھا جہاں سے اسے محبت چاہیے تھی پر دھتکار ملی۔

اسکا سینہ فخر سے پھولا ہوا تھا۔ اس نے سوچا نہیں تھا کہ وہ اس دھتکار کا بدلا اتنی آسانی سے لے لے گا۔

”کیا کہا تھا آپ نے کہ وہ میرا ملک تھا جہاں آپکی بیٹی نے میرے ڈیڈ سے شادی کی؟؟ یہی کہا تھا نا کہ میں یہاں کسی مسلمان لڑکی سے شادی کرکے دکھاؤں۔ دیکھیں میں نے کرلی۔۔۔“ وہ ہنسا اور ہنستا چلا گیا۔ اسکے سامنے بیٹھے بوڑھے وجود کی آنکھوں اور چہرے پر بےیقینی رقم تھی۔ وہ بوڑھے وجود کو اِسی صدمے میں غرق چھوڑ آیا تھا اور اب ہیٹر کی گرمائش میں اونچی آواز سے چلتا میوزک مسرور کر رہا تھا۔

ایئر پورٹ بس آنے ہی والا تھا جب جنید نے میوزک آہستہ کیا اور اُسکی جانب متوجہ ہوا جو اُس نکاح نامے کو ہاتھوں میں پھیلائے چمکتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ اُسکے لیے ہتھیار تھا اور ابھی اُسے اِس ہتھیار سے کافی جنگیں لڑنی تھیں۔

”ولیم تم واپس کب آؤ گے؟؟“ جنید کے اُبھرتے سوال پر اُس نے نکاح نامہ تہہ کیا اور جیکٹ کی اندرونی جیب میں اڑس لیا۔ سر پر کیپ تھی جبکہ ہیڈ فون اس وقت بیگ میں تھے۔ سارا سامان اچھے سے پیک ہوا گاڑی کی ڈگی میں رکھا تھا۔

”میں واپس کیوں آؤں گا؟“ اس نے اچنبھے سے پوچھا۔

”کیا مطلب کیوں آؤں گا؟؟ اپنی وائف کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔؟؟“

وائف لفظ پر اُسکے لبوں کو شریر سی مسکان نے چھوا۔ کھاجانے والی آنکھوں سے گھورتی فجر تصور کے پردے پر لہرائی۔ دل گداز ہوا اور اس سے کوئی جواب نہیں بن پایا کئی لمحے خاموشی چھائی رہی پھر وہ آہستگی سے بولا۔

”اُسے اِس شادی میں کوئی دلچسپی نہیں۔۔“ کتھئی آنکھوں کی چمک ماند پڑ گئی۔

”اور تمہیں۔۔؟؟“ جنید ذرا سی گردن موڑ کر دیکھتا اور پھر نظریں سامنے سڑک پر جما دیتا۔

”مجھے بھی نہیں ہے۔۔۔“ اُسے اپنی ہی آواز اجنبی لگی۔

”تو کیا تم دونوں ساری عمر ایسے ہی رہو گے؟؟“ جنید کو حیرت ہوئی۔

”ہاں۔۔۔“ یک لفظی جواب ابھرا۔ وہ اب فون نکالے نوٹیفیکیشن دیکھ رہا تھا۔

”ولیم تم کب واپس آؤ گے؟؟ ڈیڈ غصہ ہیں۔۔“ نساء (ولیم کی چھوٹی بہن)کا میسج تھا۔

”ڈیفالٹ پیس اگر ڈیڈ کو پتا چلا تم پاکستان گئے ہو تو مجھے وہ زندہ دفنا دیں گے۔“ جارج (ولیم کا بڑا بھائی)کا بھی میسج تھا۔ وہ زیرلب مسکرا دیا۔

”تم کسی اور سے شادی نہیں کرو گے؟؟“ جنید کی آواز ابھری اور اسکرین پر پھسلتا اُسکا انگوٹھا ساکت ہوا۔ پھر وہ جیند کی جانب مڑا۔

”میرا چہرہ دیکھو۔۔“ وہ جنید کی جانب جھکا۔ داہنا ہاتھ بڑھا کر کیپ کھینچ کر اُتار دی۔ گہرے بھورے بال ماتھے پر آگرے۔ کون کہتا ہے بال صرف عورت کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں؟؟ کوئی پوچھتا ولیم جوزف سے اُسکی آدھی دنیا اسکے بال تھے اور آدھی دنیا اسکی وہ کتھئی آنکھیں۔۔۔اور اُسکا چہرہ؟؟ ہاں وہ تو پوری کائنات تھا۔

”دیکھو مجھے غور سے؟؟“ وہ سنجیدہ تھا۔ جنید کی جانب رخ کیے بیٹھا تھا۔ اُسکے یوں پوچھنے پر جنید کو حیرت ہوئی۔ وہ ابھرو سیکڑے اسے دیکھے گیا۔

”تمہیں میں اِس حسین شکل سے گدھا لگتا ہوں جو شادی کرکے اپنی زندگی خراب کروں گا؟؟“ اس نے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی چہرے کے گرد گھمائی۔ اسکے یوں کہنے پر جنید کا پورا منہ کھل گیا۔

”وہ جو آج دن میں کی ہے وہ کیا برتھ ڈے پارٹی تھی؟؟“ وہ جل بھن کر بولا۔ اُسے سارا دن خوار کرکے وہ کس قدر آسانی سے کہہ رہا تھا۔

”وہ بس ذرا سا۔۔۔۔“ وہ بولتے بولتے رک گیا۔ فجر کا عکس اُبھرا۔ وہ دماغ سے کیوں چپک رہی تھی؟؟ ولیم کی بھنویں سکڑنے لگیں۔ وہ جھٹکے سے پیچھے ہو بیٹھا۔ کیپ دوبارہ سر پر جما لی۔

”ہاں بولو؟؟“ جنید چلایا۔

”میں نہیں جانتا۔۔۔“ تین لفظی جواب دے کر جان چھڑا لی گئی۔

”دیکھو بھئی ہمارے ملک کی لڑکی نے ہم سب کو چھوڑ کر تم سے شادی کی ہے اور تم بھی فٹافٹ اسکے لیے مسلم ہوگئے اور اب تم دونوں ایسے برتاؤ کر رہے ہو جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔“ وہ شدید کوفت میں مبتلا تھا۔ جبکہ ولیم خاموش رہا۔ ایئر پورٹ بس آنے ہی والا تھا۔

”تم کچھ بولو گے؟؟“ جنید نے اسکی خاموشی پر استفسار کیا۔

”یس پلیز شٹ اپ۔۔“ وہ بولا بھی تھا تو کیا؟؟ جیند نے تاسف سے گردن ہلائی۔

”تم انگریزوں پر بھروسہ کرنا ہی نہیں چاہیے۔۔“ وہ زیرلب بڑبڑایا۔

”یہ بات اُسے بتانی تھی۔“ اسکا اشارہ فجر کی طرف تھا۔

”ولیم صاحب اُسکی خوبصورت کے آگے تم بچھ گئے تھے۔ تمہارا بس نہیں چل رہا تھا اپنے دل نکال کر اسکے قدموں میں رکھ دو۔ تم اُسکی خوبصورتی ہینڈل نہیں کر پا رہے تھے۔ کبھی بیوٹی ان ریڈ کبھی بیوٹی ان پرپل تو کبھی بیوٹی ان بلیک۔“ منہ بنا کر اُسکی نقل اتاری۔

”میری کیا مجال جو میں اُس جیسی تیکھی تلوار کو دیکھ بھی لوں۔ حلال ہونے کا شوق نہیں مجھے۔۔“

”بیوٹی ان بلیک نہیں بیوٹی ان وائٹ۔۔“ کان کجھا کر تصحیح کی گئی۔ چہرے کو پھر سے دلکش مسکان نے چھو لیا۔ وہ بیوٹی ان وائٹ اسکی بیوی تھی۔

دل کیوں کر رہا تھا بیچ سڑک گاڑی روک کر رقص کرنے کو؟؟ یہ صرف جیتنے کی خوشی تو نہیں تھی۔ وہ اب گاڑی کے شیشے پر کہنی ٹکائے، پہلی دو انگلیاں ہونٹوں پر رکھے مسکراہٹ چھپا رہا تھا جبکہ جنید غصے میں بڑبڑائے جارہا تھا۔

✿••✿••✿••✿

چالیس منٹ بعد وہ اپنی فلائٹ میں بیٹھا تھا۔ جیسے جہاز نے اڑان بھری ولیم نے ایک آخری نظر چمچماتے شہر کو دیکھا۔ اسی شہر میں وہ رہتی تھی فجر معراج۔ ولیم جوزف کی اکلوتی بیوی۔ وہ کتنی ہی دیر کھڑی سی جھانکتا رہا۔ فجر کے ساتھ گزرے دن کا ایک ایک لمحہ آنکھوں میں گھوم گیا۔ پھر اس نے تھک کر سیٹ سے پشت ٹکادی۔

وہ اپنی دنیا میں واپس جارہا تھا وہ دنیا جہاں اذیتیں تھی درد تھا، سب کچھ تھا۔ اسکی فلائٹ ساڑھے چودہ گھنٹے کی تھی۔ رات دس بجے اڑنے والی یہ فلائٹ اگلے دن ایک بجے(سکاٹ لینڈ کے وقت کے مطابق) کے قریب ایڈنبرا پہنچتی۔ اس نے بیگ سے ہیڈ فون نکال کر کانوں پر جمائے اور پھر چھوٹی سی ٹیپ نکال کر ہیڈ فون سے جوڑ دی اور پھر آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔

اور انسان اتنا پاگل ہے کہ اگلے انسان کو تکلیف پہچا کر اس سے بدلا لے کر سکون محسوس کرتا ہے۔ وہ سکون جو وقتی ہوتا ہے۔

”تف ہے تم پر ولیم۔ اپنی وائف کو چھوڑ آئے۔“ کتنی خاموشی سے وہ وارد ہوتی تھی۔ اس پل وہ ولیم کو اپنی شہہ رگ جتنا قریب لگی۔

”ویسے ہی چھوڑ دیا حالات کے رحم و کرم پر جیسے تمہارے باپ نے تمہاری ماں کو چھوڑا تھا۔۔“ ولیم نے تڑپ کر آنکھیں کھول دیں۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ ساتھ والی سیٹ پر ایک ادھیڑ عمر آدمی کسی رسالے کی ورق گردانی کر رہا تھا۔

وہ اپنے باپ جیسا نہیں تھا۔ اسے اپنے باپ جیسا ہرگز نہیں بننا تھا تبھی تو وہ فجر کے لیے مسلمان ہوا تھا۔

”تم اپنی چیزیں تک نہیں چھوڑتے، تم اپنی وائف کیسے چھوڑ آئے ولیم۔۔؟؟“ آواز میں استہزاء تھا طنز تھا۔ آج تو ہیڈ فون بھی اسکی آواز کو نہیں روک پائے تھے۔ وہ بےچین ہوا۔

اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

”کیا تم ٹھیک ہو؟؟“ ساتھ بیٹھے آدمی نے پوچھا۔ اسے ولیم کی حالت عجیب لگ رہی تھی۔

”میں ٹھیک ہوں۔۔“ بےساختہ چہرہ دونوں ہاتھوں میں گرادیا تھا۔ اب اسکی آواز نہیں آرہی تھی۔ ولیم کا سکون برباد کرکے وہ جا چکی تھی۔

اور کئی گھنٹے جاگتے رہنے کے بعد وہ جس قدر تھکا ہوا تھا سوگیا۔ پرسکون نیند!

اور جب آنکھ کھلی تو جہاز ایڈنبرا میں لینڈ کرنے والا تھا۔ اس نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ صبح کے آٹھ بجنے والے تھے اور ایڈنبرا میں درجہ حرارت اس وقت سات سینٹی گریڈ تھا۔ شدید ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔ آج کل درجہ حرارت رات میں ایک سینٹی گریڈ تک گر جاتا تھا۔ وہ غور سے دیکھتا رہا سب کچھ ویسا ہی تھا پھر بھی سب بدلا بدلا سب روشن روشن کیوں لگ رہا تھا؟؟ حالانکہ صبح کے آٹھ بجے بھی ایڈنبرا میں رات کا سماں تھا۔ سرمئی اندھیرا چاروں جانب پھیلا تھا۔

یہ عجیب سی کیفیت تھی۔ وہ جیکٹ پہنتا کھڑکی سے ہٹ گیا اور پھر بیس منٹ بعد وہ ایئر پورٹ سے باہر نکل رہا تھا۔ یونائیٹڈ کنگڈم کا چھٹا مصروف ترین ایئرپورت جسکی بھوری عمارت پر بڑا سا Edinburgh Airport لکھا تھا۔ وہ جگہ جہاں سکاٹ لینڈ دنیا سے ملتا تھا یا دنیا سکاٹ لینڈ سے ملتی تھی۔ یہ دور سے ہی دکھائی دیتا تھا۔

اگر یڈنبرا کے بارے میں بات کی جائے تو یہ ایک بہت ہی خوبصورت شہر ہے جو اسکاٹ لینڈ میں واقع ہے۔ یہ اسکاٹ لینڈ کا دارالحکومت ہے۔ یہ اپنی تاریخ، ثقافت اور فنون لطیفہ کے لیے مشہور ہے۔ یہاں آپ کو تاریخی قلعے، خوبصورت مناظر، اور ثقافتی میلوں کا تجربہ کرنے کو ملتا ہے۔ شہر کی خوبصورتی میں اس کی قدیم عمارتیں، باغات، اور پہاڑی علاقے شامل ہیں، جیسے آرتھر سیٹ، جو ایک مشہور پہاڑی ہے جہاں سے شہر کا شاندار منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ ایڈنبرا کی خاص بات یہ ہے کہ یہ تاریخ اور جدیدیت کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔

جغرافیائی طور پر، ایڈنبرا ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہے، جس کے گرد پہاڑ اور گھنے جنگلات ہیں۔

ایڈنبرا کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کو ”ادب کا شہر“ کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں بہت سے مشہور ادیب پیدا ہوئے، جیسے رابرٹ برنس، آرتھر کانن ڈوئل اور جے کے رولنگ۔۔جی ہاں ہیری پوٹر کی مصنفہ جے کے رولنگ!

ایڈنبرا ”اولڈ سموکی“ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اولڈ سموکی کہنے کی وجہ اس شہر کی تاریخی اور ثقافتی خصوصیات ہیں۔ یہ نام خاص طور پر ایڈنبرا کی دھوئیں دار، پتھریلی گلیوں اور قدیم عمارتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کیونکہ یہاں کی عمارتیں سرمئی ہیں۔

یہاں کی گلیاں اور عمارتیں کئی صدیوں کی تاریخ کی گواہی دیتی ہیں، اور ایڈنبرا کی قدیم طرز تعمیر میں اکثر دھوئیں کا اثر ہوتا تھا، خاص طور پر جب کوئلے کے چولہے استعمال ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ، ”سموکی“ کا لفظ اس شہر کی روایتی ”اسکاچ وہسکی“ کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے، جو کہ دھوئیں دار ذائقے کی وجہ سے مشہور ہے۔

یہ نام ایڈنبرا کی ثقافتی ورثے، تاریخی اہمیت اور اس کی منفرد خصوصیات کو اجاگر کرتا ہے، جو اسے ایک خاص شناخت فراہم کرتا ہے۔

اسی ایڈنبرا کی ایک خوبصورت صبح میں ولیم کندھے پر بیگ ڈالے، ایک ہاتھ میں فون پکڑے جبکہ دوسرے ہاتھ سے کیری تھامے باہر نکل رہا تھا۔

”کہاں ہو؟؟“ اسکا انگوٹھا تیزی سے ٹائپ کر رہا تھا۔ جبکہ ویٹنگ ایریا سے کچھ فاصلے پر ایک خوبصورت سی گاڑی کھڑی تھی۔

AMG SL Roadster

چمچماتی مرکری رنگ کی کار، جسکی چھت کھلی تھی۔ سیاہ چمکتے پہیوں والی کار پوری شان و شوکت سے کھڑی اترا رہی تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر نیل بیٹھا تھا۔ جینز شرٹ پر لیدر کی جیکٹ پہنے مفلر کو کانوں پر لپیٹے اور سر پر گرم ٹوپی اوڑھے وہ ولیم کا ہی انتظار کر رہا تھا۔ جیسے ہی اسکی نظر باہر آتے ولیم پر پڑی وہ اچھلتے ہوا گاڑی کا درازہ پھلانگ کر باہر نکلا اور تیزی سے اُسکی جانب لپکا۔ اگلے لمحے وہ اس سے چپکا کھڑا تھا۔ دونوں بازو اسکے گرد جمائے۔

”میں نے تمہیں بہت مِس کیا۔۔“ وہ مسرور سا بولا۔ اسے ولیم بہت عزیز تھا۔ آنکھیں بند کیے چہرہ اسکے کندھے پر ٹکائے وہ کسی حسینہ کی طرح اس سے چپکا ہوا تھا جبکہ ولیم کے ہاتھ پہلو میں ہی رہے اس نے نیل کے گرد اپنے بازو نہیں پھیلائے۔

”پیچھے ہٹو، تمہارے جسم سے اٹھتے بدبد کے بھبوکوں سے مجھے قے آجائے گی۔۔“ وہ بےمروتی سے بولا تو نیل منہ بناتا اسے سے الگ ہوا۔ گاڑی کو دیکھتے ولیم کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ہینڈ کیری کو وہیں چھوڑتے وہ گاڑی کی جانب بڑھا۔

”بیلا۔۔۔“ ہاں اسکی گاڑی کا نام بیلا تھا اور اسے وہ بہت عزیز تھی۔ حد سے زیادہ۔ نیل سے بھی زیادہ۔

اب وہ گھوم پھر کر چاروں سے جانب سے بیلا کا معائنہ کر رہا تھا کہ کہیں کوئی کھروچ تو نہیں جبکہ نیل کمر پر دونوں ہاتھ جمائے، آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھ رہا تھا۔ بیس دنوں بعد وہ ایک دوسرے سے مل رہے تھے اور ولیم کو اس سے زیادہ اپنی بیلا کی پرواہ تھی جو وہ نیل کے حوالے کرکے گیا تھا۔ کندھے پر لٹکا بیگ ولیم نے اتار کر پچھلی سیٹ پر پھینکا اور جب اسے یقین ہوگیا گاڑی بالکل اسی حالت میں تھی جس میں وہ چھوڑ کر گیا تھا تو اسکی آنکھیں چمک اٹھیں۔

”بہت بڑے کمینے ہو تم۔ دوست سے زیادہ یہ گاڑی عزیز ہے جس نے بیس دن اسکا خیال رکھا۔“ نیل بولے بنا نہیں رہ سکے۔نہ بولتا تو پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے۔ ایشائی نین نقش والا نیل ایک انڈین لڑکا تھا۔ لوگ تیزی سے آجارہے تھے اور کئی ستائشی نظریں بیلا کی جانب اٹھیں۔ ولیم ان تمام نظروں سے اچھے سے واقف تھا۔ کیونکہ اس نے یہ گاڑی محنت سے حاصل کی تھی۔ جانتے ہیں کیسے حاصل کی تھی؟؟ لمبی کہانی ہے آگے راز کھلے گا۔

مسکراہٹ ولیم کی آنکھوں تک محدود رہی۔ ہونٹوں تک آنے کی گستاخی نہیں کی۔ اگلے ہی پل وہ اُچھلا اور گاڑی کے اندر چھلانگ لگادی۔ وہ اب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ ہاتھ سے چھو کر دیکھ رہا تھا محسوس کر رہا تھا۔

”ایک دن بھی میں نے اِسے باہر نہیں نکالا، گیراج سے ابھی لے کر آیا ہوں۔۔“ نیل نے اُسکا ہینڈ کیری اٹھا کر پچھلی سیٹ پر رکھ دیا اور دوسری طرف کا دروازہ کھول کر وہ اندر اسکے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جبکہ ولیم ابھی تک خاموش تھا۔

”اب جلدی سے مجھے اچھا ناشتہ کرواؤ تمہاری وجہ سے صبح صبح یہاں ایئرپورٹ پر جھک مارہا ہوں۔“ اس نے بیٹھتے ہی فرمائش کی۔ یوں بھی اسے ولیم سے اس دورے کے سبھی قصے سننے تھے۔

”گھر چلتے ہیں۔۔“ ولیم نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ وہ اکثر سفر سے واپس آتا تو تھکا ہوتا تھا پر آج نہیں تھا۔ جانے کیوں ایک نئی انرجی اندر دوڑتی محسوس ہورہی تھی۔

”او بھائی! خدا کا خوف کر۔۔“ گھر کے نام پر نیل بدک گیا۔

”تمہارے اس محل جیسے گھر میں مجھے اس وقت جانے کا کوئی شوق نہیں ہے جب تمہارا ڈریکولا جیسا باپ وہاں موجود ہو۔۔“ اسکا حلق تک کڑوہ ہوا۔ نیل کو مسٹر جوزف نہیں پسند تھا اور مسٹر جوزف کو تو نیل زہر لگتا تھا۔ اسی لیے نیل مسٹر جوزف کی موجودگی میں وہاں جانے سے گھبراتا تھا۔

”کسی کافی شاپ چلتے ہیں گرم گرم کافی پیئیں گے کافی ٹھنڈ ہے۔“ اُس نے اپنے ہاتھ مسل کر گرمائش پیدا کی جبکہ منہ سے اڑتی بھاپ ایڈنبرا کو سموکی بنانے کی ایک اور وجہ لگ رہی تھی۔ جب جب وہ نیل منہ کھول رہا تھا سفید دھویں نماں بھاپ منظر کو دھندلا سا کر دیتی۔

اس نے ڈیش بورڈ پر موجود بٹن دبایا سیاہ رنگ کی جالی نما چھت گاڑی کے پچھلے حصے سے کسی چھتری کی طرح کھلتی انکے اوپر سے گزر کر سامنے ڈیش بورڈ میں فکس ہوگئی۔ اور اگلے ہی پل بیلا فراٹے پھرتی گہری سرمئی رنگ کی سڑک پر تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔

✿••✿••✿••✿

اسی صبح میں ایئر پورٹ سے تقریباً سات میل کے فاصلے پر موریفیلڈ (Morrayfield) میں واقع جوزف پیلس پوری شان و شوکت سے کھڑا تھا۔ وکٹورین طرز کا بنا یہ پیلس اپنے اونچے منار اور بےپناہ کھڑکیوں کے باعث دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

اگر بات کی جائے موریفیلڈ کی تو یہ ایڈنبرا کا ایک مشہور علاقہ ہے، جو خاص طور پر اپنے رگبی (رگبی فٹبال کی طرح کا میچ ہے جس میں گیند کو ہاتھ میں پکڑ کر حریف کے اینڈ زون میں لے جانا ہوتا ہے) اسٹیڈیم کے لیے جانا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ، موریفیلڈ ایک رہائشی علاقے کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، جہاں وکٹورین اور ایڈورڈین طرز کی عمارتیں موجود ہیں۔ یہاں کے گھر عموماً کشادہ ہوتے ہیں اور اس میں باغات بھی ہوتے ہیں، جو اس علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہاں پر گھر ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہوتے ہیں اور تقریباً ہر گھر کے گرد اپنا ایک باغ ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک ایکڑ پر بنے اس ہرے بھرے سے باغ میں جوزف پیلس موجود تھا۔ پیلس کی ظاہری وضع قطع کو سمجھنے کے لیے پہلے وکٹورین اسٹائل کو سمجھنا زیادہ ضروری ہے۔

وکٹورین گھر (Victorian houses) 19ویں صدی کے دوران برطانیہ میں تعمیر کیے گئے تھے، خاص طور پر ملکہ وکٹوریہ کے دور حکومت (1837-1901) کے دوران۔ یہ گھر عام طور پر اپنی خوبصورتی اور تفصیلی ڈیزائن کے لیے مشہور ہیں۔ وکٹورین گھروں میں پیچیدہ اور خوبصورت آرکیٹیکچرل تفصیلات ہوتی ہیں، جیسے کہ کڑھائی، چھوٹی بڑی بےشمار کھڑکیاں، اور مختلف شکلوں کی چھتیں۔

جوزف پیلس گوتھک طرز پر بنایا گیا پیلس تھا اس لیے اس کی چھت اونچی تھی جس میں سلیٹ کا استعمال ہوا تھا۔ اسٹین گلاس کی بنی کھڑکیاں کافی بڑی تھیں۔ اس گھر میں کئی کمرے تھے جن میں سے آج تک کچھ کمرے استعمال میں ہی نہیں لائے گئے تھے۔ گہرے سرمئی اور گہرے بھورے رنگ کا بنا یہ جوزف پلیس پہلی نظر میں ہی اپنے دیکھنے والے کو تحیر میں ڈال دیتا تھا۔ سرسبز باغ کے درمیان، جو سردیوں میں سوکھ جاتا تھا، بنا یہ گھر پہلی نظر میں کسی قلعے کی مانند لگتا تھا۔ گھر کے گرد چاروں جانب بڑا سا لان تھا اور بائیں جانب بڑا سا باغ بنا تھا۔ باغ اور لان کے گرد کوئی باڑ نہیں لگائی گئی تھی۔ یہاں سبھی گھر ایسے ہی بنے تھے کسی کو باڑ لگانے کی یا اپنی جگہ کی حدبندی کی ضرورت نہیں تھی۔ جوزف پیلس زیادہ رقبے پر پھیلا تھا۔

اور جو خاصیت اسے سب سے الگ بناتی تھی وہ یہ تھی کہ یہ اس علاقے میں اپنی طرز کا اکیلا گھر تھا۔ آس پاس کے گھر اب جدید طرز کے تھے بہت سارے گھروں کے اسٹکچر بدل چکے تھے۔ گھر اب زیادہ اونچے نہیں تھے۔

یہ چورائی رخ بنے ہوئے تھے ایک منزلا دور دور تک پھیلی عمارتیں۔ کوئی گھر ایسا تھا جو دو منزلہ ہو ورنہ ڈیزائن تبدیل کرلیے گئے تھے۔ موریفیلیڈ میں گھر کسی لائن یا سیدھ میں نہیں بنتے بلکہ یہ بےترتیب تھے۔ آگے پیچھے آمنے سامنے۔

اور ان کے بیچ جوزف پیلس کسی ڈریکولا کے پرانے محل جیسا کھڑا تھا۔ اگر ہم صبح کے اس پہر مرکزی بھیگی سڑک سے اتر کر بائیں جانب ایک پتھریلی روش پر چلتے جائیں تو روش کے آخر میں جوزف پیلس تھا۔ دونوں دور دور تک سبزہ تھا اور پیلس کے بائیں جانب باغ تھا۔

صبح کے اس پہر نم آلود دھند نے پورے موریفیلڈ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا اور یہ کسی پھوار کی طرح گھروں، درختوں، پیڑ پودوں اور سڑکوں اور آس پاس کے جنگلات پر اتر رہی تھی۔

صبح کے اس پہر ایک پرانی سی ذرد رنگ کی ٹیکسی جوزف پیلس کے سامنے مرکزی شاہراہ پر آکر رکی۔

”تم نے مجھے لیٹ کردیا۔۔“

ایک ادھیڑ عمر عورت کی نسوانی آواز گونجی۔ گاڑی کا دروازہ کھلا اور وہ تیزی سے باہر نکلی۔ چست سی پنڈلیوں تک آتی بھوری سکرٹ کے اوپر سیاہ رنگ اونی بلاؤز پہنے وہ پینتالیس سالا مسز صوفی تھی۔ پاؤں کورٹ شوز میں مقید تھی۔ بال چھوٹے چھوٹے اور گھنگریالے تھے جو بمشکل کانوں تک آرہے تھے۔ ایک بھورے مفلر کو گردن کے گرد لپیٹے سرخ و سپید رنگت والی صوفی اب اپنے جھولے نما بیگ سے پیسے نکال کر ڈرائیور کو دے رہی تھی۔ پھر وہ اپنے بھاری وجود کو تیزی سے آگے گھسیٹتی بھیگی روش پر چلتی جوزف پیلس کی جانب بڑھنے لگی۔ اسکے چہرے پر خوف تھا وحشت تھی۔ نوکری سے نکالے جانے کا ڈر تھا۔ بےعزت ہونے کا ڈر تھا۔جوتوں کے ٹک ٹک کی آواز گونجتی چلی گئی۔

صبح کے آٹھ بج رہے تھے اور اس گھر کے افراد ساڑھے آٹھ روزانہ ناشتہ کرتے تھے اور صوفی وہاں سالوں سے خانساماں کے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔

اسے پورے پانچ منٹ لگ گئے تھے مرکزی سڑک سے پیلس پہنچنے میں۔ ہاتھ بڑھا کر پوری قوت لگائی اور جہاز سائز لڑکی کا دروازہ کھل گیا۔ دروازے میں ہی پڑے چھوٹے سے قالین پر جوتے صاف کیے اور پھر بیگ سنبھالتی اندر داخل ہوئی۔

دراوازے کے دونوں جانب بڑے بڑے شیشوں والی کھڑکیاں تھیں۔ جبکہ لڑکی کا گہرا بھورا سیاہی مائل فرش دور تک بچھا تھا۔ دائیں جانب ڈرائینگ روم تھا جسکی دیواریں اسٹین گلاس کی تھیں اور اندر صوفے رکھے تھے وہ تیزی سے چلتی ڈرائنگ روم کے پہلو سے گزرتی آگے بڑھ رہی تھی۔ سامنے ہی بڑا سا ہال تھا۔ اتنا بڑا جیسے کوئی کانفرنس ہال ہو لیکن یہ مختلف تھا۔ اس ہال نما لاؤنج کے مختلف کونوں میں اٹھنے بیٹھنے کی مختلف جگہیں بنی تھیں۔ ڈرائینگ روم سے گزر کر تھوڑا آگے آؤ تو دائیں جانب دیوار پر بڑی سی لکڑی کی شیلف نسب تھی جس میں سجاوٹ کی قیمتی چیزیں تھیں۔ کئی میڈلز شان و شوکت سے سجے اترا رہے تھے۔ شیلف کے سامنے ہی وکٹورین صوفے رکھے تھے۔ ڈھلوانی شکل والے لکڑی کے یہ صوفے اپنی مثال آپ تھے۔ گہرے مہرون اور سیاہ رنگ کے امتزاج میں بنے صوفے جنکی ابھری ہوئی لکڑی پر نقش و نگار تھے۔ یہاں کھڑے ہو کر پورے لاؤنج کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ مخالف سمت میں بائیں جانب گیسٹ روم تھے اور گیسٹ روم سے تھوڑا آگے ڈائینگ ہال اور اسکے ساتھ ہی بڑا سا کچن۔

ڈائینگ ہال سے تھوڑا آگے سیڑھیاں تھیں۔ لکڑی کی موٹی اور چوڑی سیڑھیاں جو بالائی منزل تک جارہی تھیں۔

لاؤنج میں کئی کھڑکیاں تھیں جن پر بھاری عمدہ پردے ٹنگے ہوئے تھے اور اس وقت وہ سب آدھے کھلے تھے جبکہ آدھے دونوں جانب سے بند تھے۔ شیلف کے سامنے صوفے چوکور شکل میں رکھے تھے۔ تین ایک جانب تین دوسری جانب، دو دائیں دو بائیں اور درمیان بیش قیمتی قالین کے اوپر بڑا سا میز رکھا تھا۔ اگر شیلف کے ساتھ دیکھا جائے تو دیوار پر پانچ فٹ کی پینٹنگ لٹکی ہوئی تھی اور اسکے ساتھ کئی پرانی تصویریں۔ یہ پینٹنگ مسٹر جوزف پیٹرسن کی تھی۔ پہلی ہی نظر دیکھنے پر وہ کوئی عام انسان بالکل نہیں لگتا تھا۔ سیاہ سوٹ پہنے وہ شخص اپنے کھڑے ہوئے نین نقش اور سرد آنکھوں سے کوئی ویمپائر اور ڈریکولا ہی لگتا تھا۔ سرخ آنکھیں، سرخ ہونٹ، شاید انہیں اس پینٹنگ میں کسی ویمپائر کا روپ دیا گیا تھا۔

ہاتھوں کو دونوں جانب کی پینٹ میں اڑسے وہ اپنی سرد آنکھوں سے، ایسے لگتا تھا جیسے ہمیں ہی دیکھ رہا ہو۔ وہ پینٹنگ کے اندر سے ہی خون جما دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

صوفی اب تیزی سے چلتی کچن کی جانب بڑھ رہی تھی اور ایک شخص ہاتھ میں لمبا جھاڑو تھامے سیڑھیوں کے نیچے صفائی کرتا نظر آرہا تھا۔

”تم آج پھر لیٹ ہوگئی صوفی! جوزف کو پتا چلا تو غضب ہوجائے گا۔۔“ کچن سے نینی کی آواز ابھری۔ وہ خود ہی ناشتہ بنا رہی تھیں۔

”ایم سوری نینی۔ میں نے کوشش کی پر ٹیکسی نہیں ملی۔۔“ وہ اب اپنا بیگ ایک جانب رکھتی تیزی سے برتن اٹھانے لگی۔

”میں بنا رہی ہوں ناشتہ تم جاؤ دیکھو صفائی مکمل ہوگئی ہو تو برتن لگاؤ۔۔“ کچن میں نینی اور صوفی کے علاوہ ایک نوجوان لڑکی بھی تھی جو انڈے چھیل رہی تھی۔ یہ صوفی کی زیرنگرانی کام کرتی تھی۔

جبکہ نینی اسکاچ ہاٹ پوٹ (Scottish Hot Pot) کو بڑے سے پیالے میں انڈیل رہی تھی۔ صوفی کے اشارہ کرنے پر لڑکی انڈے چھوڑ کر تیزی سے باہر بھاگی۔ اس نے بھی بھوری سکرٹ اور سیاہ اونی بلاؤز پہنا ہوا تھا جسکے اوپر اپرن تھا۔ اور سر پر ٹوپی تھی۔ لڑکی کے جانے کے بعد صوفی نے اپرن پہن لیا۔

باہر صفائی والا مکمل صفائی کے بعد اب سیڑھیوں کے پیچھے بنے دروازے سے باہر نکل گیا۔ یہ دوسرا دروازہ تھا جو گھر کے پچھلے حصے میں کھلتا تھا۔ اس دروازے کے ساتھ ایک اور دروازہ تھا جس پر موٹا تالا لگا تھا اور یہ ہمیشہ بند رہتا تھا جبکہ دونوں جانب بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں۔

صوفی اب ناشتے کا سامان اٹھا کر جلدی جلدی ڈائننگ ہال میں رکھے میز پر دھر رہی تھی۔ ناشتے میں زیادہ تر ساسیجز، بیکن، انڈے، ہیرنگ، اور ٹوسٹ شامل تھے۔

اسکے علاوہ اسکاچ ہاٹ پوٹ (ایک قسم کی سوپ جو مختلف قسم کی سبزیوں اور گوشت کے ساتھ بنایا جاتا ہے اور یہ سرد موسم میں خاص طور پر پسند کیا جاتا ہے) کا بڑا سا پیالا موجود تھا۔

ڈائننگ ہال کی کی عقبی دیوار میں بڑا سا گہرے بھورے رنگ کا گھنٹا نصب تھا اور اسکے عین نیچے رکھی میز پر ایک جانب گرام فون (ایک طرح کا میوزکل آلہ) رکھا تھا جبکہ دوسری جانب ٹیلی فون تھا۔ ڈائننگ ہال اوپن تھا اور یہ لاؤنج سے ہی ملحقہ تھا۔

جیسے ہی ساڑھے آٹھ کا گھنٹا بجا۔ صوفی اور وہ لڑکی بونی ایک جانب ادب سے کھڑی ہوگئیں۔ نینی سربراہی کرسی کے قریب کھڑی تھیں۔ مستطیل شکل کا یہ میز طرح طرح لوازمات سے سجا ہوا تھا۔

سیڑھیوں پر دھوڑنے کی آواز ابھری اور دیکھتے ہی دیکھتے جارج اور نساء بھاگتے ہوئے آئے۔

”گڈ مارننگ نینی۔۔“ دونوں نے باری باری نینی کے دونوں گالوں کو چھوا اور پھر سربراہی کرسی کے دونوں جانب بیٹھ گئے۔

قدموں کی چاپ ایک بار پھر سے ابھری اور اس بار مسٹر جوزف آتے دکھائی دیے۔ سیاہ ڈریس پینٹ پر گہرے رنگ کا اوور کوٹ پہنے، بالوں کو جیل کی مدد سے پیچھے جمائے، چمچماتے جوتے پہنے وہ ایک ایک زینہ اتر رہے تھے۔

چہرہ سپاٹ تھا۔ آنکھیں سرد ہر روز اسی وقت پر وہ یہ زینے اترتے تھے۔ ہر روز اسی وقت پر ناشتہ ہوتا تھا۔ ہر روز اسی وقت پر ہر چیز پرفیکٹلی تیار ہوتی تھی۔

صوفی اور بونی کے پاس ہاتھ باندھے اب انکا ذاتی ملازم کھڑا تھا۔

”گڈ مارننگ نینی۔۔“ وہ قدم دھرتے نیچے اتر آئے اور پھر نساء اور جارج کی طرح انہوں نے بھی نینی کے گال پر پیار کیا۔

نینی ہولے سے مسکرائیں۔ پینسٹھ سالا نینی ایک حبشی خاتون تھیں وہ مسٹر جوزف کی آیا تھیں اور مسٹر جوزف انہیں ماں کا درجہ دیتے تھے۔

“بیٹھ جائیں۔۔۔“ نینی کو کندھوں سے پکڑتے دوسرے جانب کی سربراہی کرسی پر بٹھانے کے بعد اب وہ اپنی کرسی پر بیٹھ چکے تھے۔ نساء اور جارج خاموشی سے بیٹھے تھے۔

”کیسے ہو تم دونوں؟؟“ انہوں نے بیٹھتے ہی دونوں سے پوچھا۔ نساء تروتازہ تھی جبکہ جارج کی آنکھیں شدید نیند سے بھری تھیں۔ اس کی یونیورسٹی کی چھٹی تھی لیکن ناشتے کے لیے سب کا ایک ساتھ ہونا ضروری تھا۔ ڈائننگ ہال میں اس وقت سوپ کی اشتہا انگیز خوشبو نتھنوں سے ٹکرا رہی تھی۔

“فائن ڈیڈ۔۔“ دونوں یک زبان بولے۔

”چلو پہلے دعا مانگتے ہیں۔۔“ ایک ہاتھ کی مٹھی پر دوسرا جمائے وہ سب آنکھیں بند کیے زیرلب کچھ مانگ رہے تھے اور پھر آمین کی آواز ابھری۔ نینی کے اشارے پر صوفی نے آگے بڑھ کر ناشتہ پیش کرنا شروع کیا۔

بڑی کی نفاست اور خاموشی کے ساتھ کھانا شروع ہوا۔ جوزف نے ان دونوں سے انکی پڑھائی کا پوچھا۔

”کچھ پتا ہے ولیم کہاں گیا ہے؟؟“

جیسے ہی ناشتہ ختم ہوا مسٹر جوزف ہولے سے بولے۔ چہرہ ابھی بھی سپاٹ تھا جبکہ نسا اور جارج کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی دونوں نے گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھا۔

”نہیں پتا ڈیڈ! اس بار اس نے ابھی تک کوئی ویڈیو اپلوڈ نہیں کی ہے۔۔“ لہجے کو حددرجہ نارمل بنانے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ مسٹر جوزف نے کچھ سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا اور اگلے ہی پل وہ میز سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

انکا ملازم جو بیگ تھامے کھڑا تھا تیزی سے آگے بڑھا جبکہ نینی ابھی خاموش تھیں۔

وہ اب خداحافظ کہتے خارجی دروازے کی جانب بڑھ رہے تھے جبکہ ملازم پیچھے پیچھے تھا۔ پھر وہ اچانک رک گئے۔اور انکے رکنے پر نساء، جارج اور نینی تینوں کا سانس رک گیا تھا۔

”تم لوگوں کی بات ہوئی اس سے؟؟ کچھ بتایا کب تک آرہا ہے؟؟“ اگلا سوال اُبھرا۔ نساء نے بس کندھے اچکانے پر اکتفا کیا۔

”نہیں بات نہیں ہوئی۔۔“ جارج نے بمشکل جواب دیا۔

مسٹر جوزف نے ایک بار پھر سے اثبات میں سر ہلایا اور جانے کے لیے۔ پیچھے گہرا سناٹا چھایا تھا۔ وہ سب اپنا سانس روکے کھڑے تھے۔ انہیں شور نہیں پسند تھا اور باقی سب اپنے سانس چلنے کی آواز تک روک لیتے تھے جب وہ لاؤنج عبور کرکے ڈرائنگ روم تک پہنچے بڑے سے گھنٹے کے نیچے رکھا ٹیلی فون زور سے چنگاڑا۔ نساء کی بےساختہ چیخ ابھری جسے اس نے منہ پر ہاتھ رکھتے دبایا جبکہ باقی سب اپنی اپنی جگہ پر اچھل پڑے۔

ٹیلی فون بج رہا تھا اور مسٹر جوزف کے قدم ساکت ہوئے۔

کچھ پل وہ یونہیں کھڑے رہے اور پھر پلٹ کر دیکھا۔ یہ ٹیلی فون نہیں بلکہ خطرے کی گھنٹی تھا اور خطرہ ولیم سے جڑا تھا۔ مسٹر جوزف نے ایک گہرا سانس فضا میں خارج کیا جبکہ جارج تیزی سے چنگاڑے فون کی طرف لپکا۔

”آگیا ولیم جوزف واپس۔۔۔“ وہ اب جبڑے بھینچے کھڑے تھے۔ کچھ نہ کچھ غلط ہوا تھا اور کیا غلط تھا وہ اب جارج فون رکھ ہی بتا سکتا تھا۔

✿••✿••✿••✿

نیل اور ولیم صبح کے اس پہر ایک رستوران میں بیٹھے تھے جہاں لوگ ناشتہ کرنے آتے تھے۔ گلاس وال کے قریب رکھے گول میز پر وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ پورے رستوران میں ناشتے کی مہک پھیلی تھی۔ ولیم نے منہ ہاتھ دھوئے اور جیکٹ اتار کر ایک جانب کرسی سے لٹکادی وہ ابھی تک اس بھوری اونی اوور سائزڈ گول گلے والی شرٹ میں تھا جو اس نے ایک دن پہلے فجر سے نکاح کے وقت پہن رکھی تھی۔ اس بھوری شرٹ میں اسکی رنگ نمایاں تھی۔

گھنے بالوں کو گیلے ہاتھوں سے پیچھے کی جانب سیٹ کیا گیا تھا جبکہ شرٹ کے بازوؤں کو کہنیوں سے ذرا نیچے تک فولڈ کرلیا۔ وہ کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا جبکہ ویٹر اب ناشتہ میز پر لگا رہا تھا۔

گرم گرم سوپ اور کڈنی پائی کو دیکھ کر نیل کے کی رال ٹپکنے کے ساتھ ساتھ ولیم کی بھوک بھی جاگ اٹھی۔ کڈنی پائی ایک روایتی اسکاٹش ڈش ہے جو گائے یا بھیڑ کے گردے، گوشت اور مختلف سبزیوں کے ساتھ تیار کی جاتی ہے۔ یہ پائی پیسٹری کی تہوں میں لپیٹی ہوتی ہے جو اسے کرنچی اور مزیدار بناتی ہے۔ یہ گرم اور تسکین بخش ہوتی ہے اس لیے زیادہ تر سریوں میں کھائی جاتی ہے۔ پائی کی اٹھتی مہک نے اسے سیدھا ہو کر بیٹھنے پر مجبور کیا۔

اس سے کچھ فاصلے پر کونے والی میز پر دو لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ ان کی نظریں ولیم اور نیل پر تھیں۔

”یہ تو اسٹار لائٹ پروڈکشن کے مالک جوزف پیٹرسن کا بیٹا ہے نا؟؟ میں نے اسے ایک مرتبہ اُنکے ساتھ دیکھا تھا۔۔“ موضوع گفتگو اب ولیم تھا۔

”جو بھی ہے ہینڈسم ہے۔۔“ دوسری لڑکی نے اسے دیکھتے فوراً کہا۔ وہ اب نیل کی کسی بات پر مسکرایا تھا۔ وہ اب پائی کی چھوٹی پیسٹری کو اٹھائے منہ تک لے جا رہا تھا اور اسکے بازو اور ان پر ابھری ہلکی نیلی نسیں نمایاں ہوئیں۔

”ریجیکٹڈ۔۔۔“ پہلی لڑکی فوراً بولی جبکہ دوسری نے تعجب سے اسے دیکھا۔

”تم اُسے ریجیکٹ کر رہی ہو؟؟ اسے کوئی کیسے ریجیکٹ کر سکتا ہے؟؟“

”میں خود کو ریجیکٹ کر رہی ہوں۔۔۔۔“ پہلی لڑکی استہزائیہ بولی جبکہ دوسری نے ٹھنڈی آہ بھرتے ولیم سے نظریں ہٹالیں۔

”چلو جلدی ناشتہ کرو آفس پہنچنا ہے۔۔“ وہ دونوں اب مگن سی ناشتہ کر رہی تھیں لیکن ولیم گفتگو کا موضوع ہی رہا۔ کبھی اسکے بارے میں تو کبھی مسٹر جوزف کے بارے میں کچھ کہا جاتا۔

جبکہ کچھ فاصلے پر بیٹھا ولیم انکی نظروں سے انجان نہیں تھا۔ ہاں وہ ولیم جوزف تھا اسے دیکھ کر لڑکیاں خود کو خود ہی ریجیکٹ کرلیتی تھیں۔

”تو بتاؤ تمہارا یہ ٹوؤر کیسا رہا؟؟“ نیل نے سوپ پیتے پوچھا۔

”زبردست۔۔۔“ کوئی چھم سے تصور کے پردے پر لہرایا۔

”اور اس بار نیا کیا کیا؟؟؟“ اگلا سوال ابھرا۔ پیٹ بھرتے ہی اسکا دماغ کام کرنا شروع ہوگیا تھا۔

”شادی۔۔۔“ پرسکون سے ولیم نے بم پھوڑا اور نیل کو زوردار اچھو لگا۔ اس نے بےساختہ گردن پر ہاتھ رکھا۔ بری طرح کھانستے ہوئے اس نے پانی اٹھا کر پیا جبکہ ولیم نے بھنویں سکیڑ کر اسے دیکھا۔

”کیا ہوگیا ہے؟“

”تمہیں کیا ہوگیا ہے بھائی؟ تم ٹھیک ہو؟ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو؟؟“ اسے ولیم پر شبہ ہوا اسکی ذہنی حالت دن بدن بگڑی جارہی تھی اس بار نیل کو افسوس ہوا۔

”تم نے پوچھا میں نے بتادیا اس میں اتنا ری ایکٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟؟“ وہ سنجیدہ تھا اور مزے سے سوپ پی رہا تھا جبکہ نیل کی بھوک اڑ چکی تھی وہ اب حیرت اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات سے اسے دیکھ رہا تھا۔

”کس سے کی شادی؟؟“ وہ ابھی تک بےیقین تھا۔

”لڑکی سے ہی۔ میں اسٹریٹ ہوں لڑکوں میں ذرا دلچسپی نہیں ہے۔۔“ سکون سے اگلا جواب دیا گیا۔

”اندھی تھی کیا وہ؟؟“ نیل نے سوال کیا تھا یا تبصرہ؟ ولیم نے گھور کر اسے دیکھ جبکہ وہ گڑبڑا گیا۔

”میرا مطلب شادی وہ بھی تم سے؟؟ اور تم نے کیسے کرلی؟ میں نہیں مانتا بھئی۔۔“ دونوں ہاتھ اٹھا کر اعلان کیا گیا۔ ولیم نے سوپ کا پیالا رکھا اور پھر جیکٹ اٹھا کر اسکی اندرونی جیب سے ایک تہہ شدہ کاغذ نکالا اور نیل کی جانب بڑھایا نیل نے اسے پکڑا اور کھول کر دیکھا۔

ولیم دوبارہ سوپ کی جانب متوجہ ہوچکا تھا۔ جیسے ہی نیل نے کاغذ کھولا اور سرسری سی نظر اس پر ڈالی اگلے ہی پل وہ شدت جذبات سے چلاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔

”واٹ دا۔۔۔“ اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر خود کو کچھ غلط بولنے سے روکا جبکہ ولیم اتنا شدید ردعمل کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ رستوران میں بیٹھے کافی لوگوں نے تعجب سے نیل کو دیکھا جو معذرت کرتا واپس بیٹھا پھر اسکی جانب جھک کر سرگوشی نما انداز میں بولا۔

”بھائی تم نے شادی کرلی؟؟ تم نے پاکستانی لڑکی سے شادی کرلی؟؟“ اسکی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو تیار تھیں۔ چہرہ سرخ پڑچکا تھا۔ ولیم نے اسکے جواب میں ذرا سے کندھے اچکا دیے۔

”شادی کے لیے تجھے پاکستانی لڑکی ہی ملی تھی؟؟“

وہ سوال پر سوال کر رہا تھا جبکہ ایک پل کو ولیم نے خود کو بس اسٹاپ پر پایا بیوٹی ان وائٹ اسکے ساتھ بیٹھی تھی۔

”تمہارے ڈریکولا باپ کو پتا چلا وہ تیرا خون پی جائے گا۔۔“ وہ رازدانہ انداز میں بولا پھر کاغذ تہہ کرتے واپس اسکی جانب بڑھایا مبادہ کہیں مسٹر جوزف اسے اس کاغذ کے ساتھ نہ دیکھ لے اور پھر ولیم سے پہلے اسکی موت واقع ہو۔

ولیم نے وہ کاغذ پکڑ کر واپس رکھ لیا۔ مسلمان ہونے والی بات وہ چھپا گیا تھا اور نہ نیل نے پوچھا۔ اگلے ہی پل نیل منہ پر ہاتھ رکھتا جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ولیم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

”میرا اور تمہارا تعلق ختم۔۔۔“ وہ دونوں ہاتھ جھٹکتے بولا۔

”تم مجھے نہیں جانتے اور میں تمہیں نہیں جانتا۔۔۔“ اس نے تعلق ہی کردیا۔

”پاگل ہوگئے ہو؟؟“ ولیم سنجیدہ سا بولا۔

”پاگل میں نہیں پاگل تم ہوگئے ہو۔ تیرے باپ کو پتا چلا نا سالے تیرا خون پی کر، تیرا گوشت چبا کر، تیری ہڈیاں ایسی جگہ دبائے گا کہ شکاری کتے بھی نہ ڈھونڈ پائیں۔۔“ وہ تڑخ کر بولا جبکہ ولیم نے جبڑے بھینچے۔ کہہ تو وہ ٹھیک ہی رہا تھا۔

”میں چلا اپنے گھر۔ میں تجھے نہیں جانتا نہ میرا اس معاملے سے کوئی تعلق ہے۔۔“ ولیم نے اسے ہاتھ پکڑ کر روکنے کی کوشش کی لیکن وہ بدک کر پیچھے ہٹا اور پھر تیزی سے باہر نکل گیا۔ مہنگا ناشتہ گیا بھاڑ میں جان زیادہ پیاری تھی۔

جبکہ پیچھے ولیم اکیلا بیٹھا رہ گیا۔ کچھ دیر تک وہ وہیں بیٹھا رہا اور پھر بل ادا کرنے کے بعد وہ اپنی جیکٹ اٹھاتا باہر نکل آیا۔ گاڑی میں بیٹھ کر جیکٹ پھر سے پہن لی۔

جیب سے وہ نکاح نامہ نکال کر دیکھا۔۔۔۔ فجر معراج اور ولیم جوزف واضح تھا۔ اسکی کتھئی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اگلے ہی پل نے اس نے نکاح نامہ واپس ڈال لیا۔ گاڑی اسٹارٹ کی اور تیزی سے فراٹے بھرتا آگے بڑھا۔ کچھ دیر بعد وہ تیزی سے چمچماتی روڈسٹر مرکزی شاہراہ پر آگے بڑھ رہا تھا۔

آج جانے کیوں اتنی خوشی محسوس ہورہی تھی۔ ہاتھ بڑھا کر میوزک کا بٹن دبادیا۔ گاڑی کی چھت کھول دی۔ ہڈیاں چیرتی ٹھنڈی تیز ہوا اسکے چہرے سے ٹکرائی۔ گاڑی میں میوزک کی تیز آواز گونج رہی تھی۔ آنکھوں میں سرد پن اتر آیا۔

اب وہ گاڑیوں کو کٹ کرتا آگے بڑھ رہا تھا۔ ہارن کی آواز گونجنے لگی۔ بل کھاتی اسکی گاڑی کسی ناگن کی طرح بھاگ رہی تھی۔ لوگ اسے پاگل سمجھ رہے تھے اور اپنی گاڑیوں کا بچاؤ کرتے اسے گالیاں دے رہے تھے۔

گاڑیوں کو اوورٹیک کرتا وہ جس قدر تیزی سے جارہا تھا اسکی وجہ سے کچھ گاڑیوں کی بریک لگی۔ لوگ گاڑی سے باہر منہ نکال کر اسے گالیاں دینے لگے۔

ولیم نے منہ کھول کر سانس لیا۔ سالوں کی حبس تھی جو آج باہر نکل آئی تھی۔ تصور میں ایک بوڑھا چہرہ ابھرا جسکی آنکھوں میں بےیقینی تھی، اگلے ہی پل جوزف پیٹرسن کا چہرہ سامنا آیا۔۔۔وہ وقت جب انہیں پتا چلے گا کہ ولیم پاکستانی مسلمان لڑکی سے شادی کرچکا تھا۔۔۔کیا نظارہ ہوگا وہ؟؟ جوزف پیٹرسن پہلی بار شکست کھائے گا۔

کتنا مسرور تھا وہ یہ سب سوچ سوچ کر۔

”زیادہ ہوا میں اڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔“ پہلو سے ابھرنے والی آواز پر وہ جھٹکے سے مڑا اور اگلے ہی پل حیرت سے اسکی آنکھیں پھیلیں۔

بیوٹی ان وائٹ اپنے جنتر متر لیے بیٹھی تھی۔ کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورتے ہوئے۔

”اس شادی کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔۔۔“ اگلے ہی پل اسکی آنکھوں میں درد ابھرا۔ اسٹرینگ پر ولیم کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑی۔ وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ذہن بھٹک گیا۔ ایڈنبرا غائب ہوا۔ ٹریفک اور اسکا شور بھی۔ وہ دونوں بس اسٹاپ پر تھے۔

وہ بےساختہ اسے دیکھے جارہا تھا۔ بھول گیا تھا اسکی گاڑی اوور سپیڈ تھی۔ وہ اسے پکارنا چاہتا تھا کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اگلے ہی پل ہارن کی کان کے پردے پھاڑ دینے والی آواز ابھری۔ وہ کسی خواب سے جاگا۔ گردن سیدھی کی، اسٹئرینگ پر گرفت جمائی، گاڑی کا رخ موڑنا چاہا۔ پر دیر ہوچکی تھی۔ گاڑی جس رفتار سے بھاگ رہی تھی سنبھل نہیں پائی اور سڑک کے ایک کنارے کھڑے ٹرک سے جا ٹکرائی۔ زوردار دھماکہ ہوا اور پھر خاموشی چھاگئی۔۔۔۔۔!

✿••✿••✿••✿

معراج الدین کے گھر کے سامنے ہجوم تھا۔ لوگ آجارہے تھے۔ پچھلی رات معراج الدین دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کرگیا تھا۔ جنازہ ظہر کے بعد تھا۔

کھلے صحن میں تمبو لگا کر بیٹھنے کی جگہ بنائی گئی تھی۔

محلے کی ساری عورتیں جما تھیں۔کچھ عورتیں اور لڑکیاں معراج الدین کی چارپائی کے گرد ہاتھوں میں سورہ یسین اور سپارے پکڑے کھڑی تھیں اور ہل ہل کر زور زور سے پڑھنے میں مگن تھیں۔

”رات کو انکے گھر سے رونے پیٹنے کی آوازیں آرہی تھیں۔کچھ تو ایسا ضرور ہوا ہے جس سے بیچارے معراج کی موت ہوگئی۔۔“ محلے کی عورتیں آدھا منہ دوپٹے میں چھپائے کھرپھسر کر رہی تھیں۔ جبکہ کچھ فاصلے پر فجر بیٹھی تھی کسی لاش کی طرح۔ اسکا چہرہ نیلا پڑچکا تھا اور سوجھا ہوا تھا ۔آنکھیں خشک اور ویران تھیں ایک آنسوں بھی نہیں تھا۔ وہ اکڑی ہوئی تھی۔ پورا جسم اکڑا ہوا تھا۔ ذرا سا سانس لینے پر ہی درد کی ٹیسیں اٹھنے لگتیں۔ سفید رنگ کی چادر اوٹھے وہ زندہ لاش لگ رہی تھی۔

ہڈیوں میں اتنا درد تھا جیسے ساری ٹوٹ گئی ہوں۔

”دیکھ فجر کو کیسے بیٹھی ہے باپ کے لیے ایک آنسوں نہیں نکلا۔۔“ اب اُس پر تبصرے کیے جارہے تھے۔ ہلتے ہلاتے عورتوں میں سے کوئی اس سے ٹکراگئی اور فجر کی درد کے باعث سسکی اُبھری۔ آنکھیں اذیت سے میچ لیں۔ ہونٹ آپس میں پیوست کرلیے۔ سردی کی چوٹ تھی درد جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اماں ابا کی چارپائی کے پاس بیٹھی آنسوں بہا رہی تھی۔ سالوں کا ساتھی اکیلا چھوڑ کر چلا گیا تھا۔

کوئی اپنا نہیں تھا کوئی رشتےدار نہیں تھا۔ محلے والوں نے ہی مل ملا کر سارا انتظام کیا تھا۔

”فجر رو لے پتر۔۔“ کسی بوڑھی عورت نے اسے پکڑ کر سینے سے لگا لیا تاکہ وہ رو کر اپنا دل ہلکا کرچکے تھے پر وہ آنسوں کہاں سے لاتی؟؟ سب بہادیے تھے۔ سب ختم ہوچکا تھا۔ کچھ لوگ مرجاتے ہیں انہیں دفنا دیا جاتا ہے جبکہ کچھ لوگ مرتوجاتے ہیں پر انہیں موت نہیں آتی۔ انہیں دفنایا نہیں جاتا وہ زندہ رہتے ہیں۔ انہیں زندہ رہتا پڑتا ہے اور فجر کو بھی زندہ رہنا تھا۔

✿••✿••✿••✿

جاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *