ولیم_ولی (اللہ کی محبت کے نام)
2#قسط_نمبر_1
#نور_راجپوت
باب اول: فجر
اللّہ سب سے بڑا ہے! اللّہ سب سے بڑا ہے!
شہر کے تنگ گلیوں والے پرانے محلے میں، گہرے ہوتے کُہرے کے درمیان مغرب کی پرفسوں آواز گونجی۔ سردیوں کی آمد تھی۔ مغرب کے وقت اندھیرا گہرا ہونے لگا تھا۔ اونچی نیچی تنگ گلیوں میں کھیلتے بچے اب گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ اسی محلے کی ایک تنگ گلی میں داخل ہوں تو آ خر میں ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ جس کا دروازہ لوہے کا تھا جس کی حالت خستہ تھی۔ دروازے سے اندر داخل ہوں تو سامنے ہی چھوٹا سا صحن تھا جس کے فرش کا سیمنٹ جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا۔ دائیں جانب چھوٹی سی کیاری بنی تھی جس میں چند پودے لگے تھے اور بائیں جانب پانی کی موٹر اور ساتھ ہی نل لگا تھا اور کپڑے دھونے کی جگہ بنی تھی۔ اس کے ساتھ ہی باتھروم تھا۔ سامنے دیکھیں تو برآمدہ نظر آتا تھا اور اس سے ملحقہ دو چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ برآمدے میں ایک جانب باورچی خانہ تھا تو دوسری جانب ایک اسٹور روم تھا۔ گھر کے ٹوٹے پھوٹے سے باورچی خانے میں بیٹھی وہ لگاتار ایک ہی جملہ دہرا رہی تھی۔
”اماں ارسل میرا ہے، ارسل میرا ہے اماں۔۔۔“
”چپ کر جا فجر، خدا کا خوف کھا، اذانیں ہو رہی ہیں۔۔“ اماں کی غصے بھری آواز ابھری۔ وہ باہر لگے نل پر وضو کرنے گئی تھی۔
” تو بھی خوف کھایا کر امّاں۔ تجھے خوف کیوں نہیں آتا یہ کہتے کہ ارسل میرا نہیں ہے؟؟تجھے خوف کیوں نہیں آتا میرا دل دکھاتے؟؟“
وہ پوری قوت سے چلائی۔ چہرے کے نقوش بگڑ گئے۔ باورچی خانے میں بچھے چھوٹے سے دسترخوان پر بیٹھی فجر معراج کا دل کھانے سے اچاٹ ہوچکا تھا۔ پہلے ہی کھانے میں دال دیکھ کر اس کی بھوک آدھی اڑ گئی تھی اور اب آدھی امّاں کی باتوں نے اُڑا دی تھی۔ اس نے بےدلی سے پلیٹ کھِسکادی اور اب فون نکال کر کچھ ڈھونڈنے لگی۔ اگلے ہی پل فون کی اسکرین پر ایک خوبصورت سی گھڑی جگمگ کر رہی تھی۔ گھڑی کی قیمت دس ہزار تھی۔
”اتنے پیسے کہاں سے لاؤں؟؟“
کل ارسل کا برتھ ڈے تھا اور فجر اُسے ہر قیمت پر یہ گھڑ گفٹ کرنا چاہتی تھی۔ ارسل برہان گردیزی، فجر معراج کی پوری دنیا تھا۔ پچھلے کئی مہینوں سے پیسے جوڑنے کے بعد بھی وہ اتنے اکٹھے نہیں کر پائی تھی کہ اسے اپنی پسند کے سارے تحفے دے سکے۔ غصے کی جگہ اب اُداسی نے لے لی۔
کئی لمحے وہ یونہی بیٹھی رہی۔ اذان کب ختم ہوئی کچھ پتا نہ چلا۔ چونکیتب، جب امّاں اس کے سر پر آن کھڑی ہوئی۔
”کھانا پھر چھوڑ دیا؟؟ کیوں ضائع کرتی ہے رزق فجر؟؟“
پلیٹ میں رکھی روٹی اور کٹوری میں بچی دال کو دیکھ کر وہ افسوس سے بولی۔
”یہاں میری زندگی ضائع ہورہی ہے امّاں اس کی پرواہ نہیں ہے تجھے؟؟“
وہ مارے ضبط سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ آنکھوں میں نمی تھی۔ غصہ تھا، بےبسی تھی، پر امّاں کو دال روٹی کی پڑی تھی۔
”چل جا نماز پڑھ۔۔“امّاں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے کہا اور کونے میں رکھی انگیٹھی کے پاس کھڑے ہو کر کوئلوں کی گرمائش لی۔ ٹھنڈے پانی سے وضو کے بعد ان کی حالت خراب ہورہی تھی۔ باورچی خانے میں کافی گرمائش تھی جبکہ باہر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور پانی تو حد سے زیادہ ٹھنڈا تھا۔
”پڑھ لوں گی پہلے مجھے سات ہزار چاہئیں“ لہجے کو حد درجہ نارمل بناتے اُس نے مطالبہ کیا۔
”سات ہزار؟؟“ اماں کو ہول پڑا انہوں نے بےاختیار سینے پر ہاتھ رکھا۔ ”کس لیے چاہئیں تجھے اتنے پیسے؟؟“
”مجھے ضرورت ہے اماں ورنہ میں تجھ سے کبھی نہ مانگتی۔“ وہ بضد تھی جانتی تھی اگر وجہ بتا دیتی تو اماں کبھی نہ دیتی۔ دینے والی تو وہ ابھی بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی ایک موہوم سی اُمید تھی۔ شاید اُنکا دل نرم پڑ جائے۔ شاید انہیں اپنی بیٹی پر ترس آجائے۔
”ایسی کیا ضرورت آگئی تجھے راتوں رات؟؟ یونیورسٹی کی فیس تو بھر دی نا۔۔؟؟“ اماں نے دوپٹے کو حجاب کی صورت میں اچھے سے لپٹتے پوچھا۔ وہ اب نماز پڑھنے والی تھی۔ اُنکی بات سن کر فجر کا دل کلس کر رہ گیا۔
”ارسل کا برتھ ڈے ہے کل مجھے اس کے لیے گفٹ خریدنا ہے۔“ سپاٹ لہجے میں کہتی وہ وہیں جمی کھڑی رہی۔ اس کی بات سن کر اماں نے ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے لعنت بھیجی ہو۔
اور پھر بنا کچھ کہے اس کے پاس سے گزر کے باہر نکل گئی۔
”اماں پیسے دے دے مجھے۔“ وہ انکے پیچھے لپکی۔ جبکہ اماں برآمدے میں جائے نماز بچھا کر اس پر کھڑی ہوچکی تھی۔
”اماں۔۔۔“ نیت باندھتی اماں کو اس نے پھر سے پکارہ۔ ضبط کے مارے آنکھوں میں آنسوں بھر گئے۔ وہ مٹھیاں بھینچے کھڑی تھی۔ جبکہ اماں نیت باندھ چکی تھی۔ وہ اب نماز پڑھ رہی تھی۔
”ایسے اولاد کو تڑپا کر نمازیں قبول نہیں ہوتیں۔۔۔“ وہ غصے سے چیختی اپنے چھوٹے سے کمرے کی جانب بڑھی اور دروازے پوری قوت سے دے مارا۔ اب وہ بیڈ پر اوندھے منہ پڑی رو رہی تھی۔ کمرے میں ایک چھوٹے سے سنگل بیڈ کے علاوہ ایک پرانی سی الماری تھی اور ایک خستہ سی کرسی اور میز رکھی تھی۔ اور کوئی سامان نہیں تھا۔
”فجر نماز پڑھ لے۔۔۔“ اماں نے فرض رکعات پڑھنے کے بعد پھر سے اسے پکارہ اور فجر کے رگ و پے میں نفرت کی لہر پھیل گئی۔ لیکن وہ بولی کچھ نہیں۔ جبکہ باہر اماں اب بیٹھے بیٹھے باقی کی رکعات پڑھ رہی تھی جبکہ ساتھ والے کمرے سے ابا کے کھانسنے کی آواز بار بار آرہی تھی۔ انہیں ٹی بی تھا اور سردیوں میں یہ مرض بڑھ جاتا تھا۔
فجر اٹھ جا اپنے باپ کو دیکھ لے۔“ اماں کی پھر سے آواز ابھری لیکن فجر نے تکیہ اٹھا کر اپنے کانوں پر رکھ لیا۔ اس وقت وہ جس تکلیف میں تھی کوئی محسوس نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی زندگی عذاب بنانے والے اس کے اپنے تھے۔ اس کے ماں باپ جن کی کنجوسی کی عادت نے اسے ہر چیز سے ترسارکھا تھا۔ کم از اکم فجر کو تو یہی لگتا تھا۔
باہر اندھیرا آہستہ آہستہ گہرا ہوتا گیا۔ اماں نے نماز پڑھ کر اس کے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔
”فجر۔۔۔۔۔چل اٹھ جا چائے بنا لے۔ مجھے بھی دینا۔ اٹھ جا برتن بھی دھونے ہیں۔“ اماں کی آواز ابھری اور فجر کا دل شدت سے چاہا کہ وہ بہری ہوجائے یا پھر اماں گونگی ہوجائے کیونکہ جتنی دیر وہ گھر ہوتی تھی فجر فجر کی پکار اُسے سکون نہیں لینے دیتی تھی۔
”نہیں پینا مجھے زہر۔۔“ وہ روتے ہوئے بڑبڑائی۔ تصور میں بار بار ارسل کا خوبصورت چہرہ ابھر رہا تھا۔ مہینوں پیسے جمع کرکے ، اپنی ضرورتیں کاٹ کر اس نے ارسل کے لیے دو تین گفٹ لیے تھے اور بس گھڑی رہ گئی تھی لیکن اس کے مٹی کے گلّے میں صرف تین ہزار تھا جو اُس نے گن گن کر اب تک ڈالا تھا پر گھڑی دس ہزار کی تھی۔ اور اماں اسے ایک روپیہ دینے کو تیار نہیں تھی۔
اماں کچھ دیر دروازے پر کھڑی رہی پھر چلی گئی۔ اب وہ اپنے کمرے میں تھی۔
”کیوں رُلاتی ہے اسے فجر کی اماں؟؟ دے دیا کر جو مانگتی ہے جو ہے اُسی کا ہے۔۔“ ابا نے کھانسی پر قابو پاتے بمشکل کہا۔ کھانس کھانس کر انکا وجود درد کرنے لگا تھا۔
”میرے پاس کونسا قارون کا خزانہ ہے؟ جو تھوڑا بہت جوڑ رکھا ہے وہ اس کی شادی کے لیے ہے فضول خرچی کے لیے کہاں سے لاؤں؟؟“ اماں نے تڑخ کر جواب دیا۔ آواز فجر تک گئی تھی۔
وہ جھٹکے سے اٹھی اور دروازہ کھول کر باہر نکلی پھر ساتھ والے کمرے کا دروازہ جھٹکے سے کھولا۔ بلب کی مدھم سی روشنی میں اس کے اماں ابا بستر میں دبکے پڑے تھے۔ وہ دونوں کافی ضعیف تھے بلکہ غربت اور مشکل حالات نے دونوں کو ایسا بنا دیا تھا۔
”تو کس نے کہا تھا مجھے بڑھاپے میں پیدا کرنے کو؟؟ جب پہلی بیٹی بیس سال کی عمر میں مرگئی تھی تو مجھے شادی کے بائیس سال بعد پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟؟ یہ ترسی ہوئی زندگی دینے کے لیے پیدا کیا تھا؟؟“ وہ تنفر سے بولی۔ چہرہ لال بھبھوکا تھا۔
معراج الدین اور سکینہ کی شادی کم عمری میں ہوگئی تھی۔ اللہ نے ایک ہی بیٹی دی تھی اس کے بعد کوئی اولاد نہ ہوئی۔ بیٹی کا نام منار رکھا گیا جو بیس سال کی عمر میں اچانک اللہ کو پیاری ہوگئی۔ یوں دونوں میاں بیوی اکیلے رہ گئے۔پھر اللہ نے کرم کیا تو منار کی موت کے ایک سال بعد اللہ نے انہیں ایک اور بیٹی سے نوازہ۔ لوگوں نے مزاق اڑایا کہ اس عمر میں اولاد پیدا کرکے اُسے کیسے پالیں گے لیکن وہ دونوں خوش تھے۔
دوسری بیٹی کا نام فجر رکھا گیا تھا اور آج بائیس سال بعد فجر معراج اپنے ماں باپ کو اپنے پیدا کرنے کا طعنہ دے رہی تھی کیونکہ وہ اسے کچھ نہیں دے پائے تھے۔
”فجر جا چلی جا زبان نہ چلایا کر۔۔“ اماں نے ڈپٹا۔
”تو تو یہی چاہتی ہے اماں کہ میں مرجاؤں۔ تو مجھے زندہ دیکھنا ہی نہیں چاہتی۔۔۔“ وہ تن فن کرتی کمرے سے نکل گئی۔ سینے میں الاؤ دہک رہا تھا۔ ایک چھوٹی سی اُمید تھی جس پر اماں نے پانی پھیر دیا تھا۔ اب وہ باورچی خانے میں برتنوں کو زور زور سے پٹخ رہی تھی۔
”کہتی ہوں کل بلقیس سے کہ جلدی اپنے بیٹے کا رشتہ لائے میں اس لڑکی کو اِس کے گھر کا کرنا چاہتی ہوں۔۔۔“
کچھ دیر بعد وہ چائے بنا کر لائی تو اماں کی آواز نے اس کے قدموں کو جکڑ لیا اور اس وقت فجر کا شدت سے دل چاہا کہ وہ چائے میں زہر گھول کر اپنی اماں کو پلادے جو اس کی خوشیوں کی دشمن بن چکی تھی۔
”فجر کی مرضی کے بنا کچھ نہ کرنا۔۔“ ابا دھیمی آواز میں بولے۔
”ابا۔۔۔“ اس نے باپ کو پکارہ۔
”اماں سے میری خوشی برداشت نہیں ہوتی میں انہیں ہزار بار بتا چکی ہوں میں ارسل سے شادی کروں گی لیکن یہ پھر اپنے ان پڑھ جاہل بھانجے سے باندھنا چاہتی ہے مجھے۔۔“ اس نے چائے کی ٹرے لا کر اماں اور ابا کے بستر کے درمیان رکھے چھوٹے سے میز پر پٹخی۔ چائے اچھل کر ٹرے میں گر گئی۔
”وہ تجھ سے بیاہ نہیں کرے گا۔۔۔“ وہ پلٹی۔ جب اماں کے الفاظ نے اس کے دل پر ہاتھ ڈالا۔ اس کا دل ہول اٹھا۔
”اماں ایسی باتیں نہ کیا کر۔۔۔۔“ وہ تھوک نگلتے بولی۔ یہ خیال بھی روح فرساں تھا اور اماں کتنی آسانی سے بول دیتی تھی۔
”کنول کا پھول، پھول ہو کر بھی کیچڑ میں ہی رہ جاتا ہے۔“ اماں نے پھر طنز کیا اور فجر کی آنکھیں پھر سے بھرنا شروع ہوئیں۔
”اماں مجھے بددعائیں نہ دیا کر تجھے اللہ کا واسطہ! میری زندگی ارسل ہے وہ نہیں تو فجر معراج بھی نہیں۔۔“ وہ ضبط نہیں رکھ پائی اور رودی۔
”بےحیا ماں باپ کے سامنے غیر مرد کے لیے ایسی باتیں کرتے تجھے حیا نہیں آتی۔۔؟؟ جا اپنا کام کر، دفع ہوجا ادھر سے۔“ اماں نے پھر گھرکا اور فجر جبڑے بھینچے کمرے سے نکل آئی۔ اس کا دل اب رو رہا تھا۔
”پیسے نہیں دینے تو نہ دے لیکن میری محبت کو بددعائیں کیوں دیتی ہے اماں۔۔۔؟؟“ وہ ہولے ہولے بڑبڑاتے باورچی خانہ صاف کر رہی تھی اور آنکھوں سے آنسوں مسلسل جاری تھے۔
✿••✿••✿••✿
”فجر۔۔۔فجر اٹھ جا نماز پڑھ لے۔“ وہ پرسکون نیند سو رہی تھی جب اماں کی آواز ہتھوڑے کی مانند اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ فجر کا وقت ہوگیا تھا اور اماں نہ صرف اسے آوازیں دے رہی تھی بلکہ کمرے کا دروازہ بھی بجا رہی تھی۔
”فجر اٹھ جا۔۔۔۔فجر۔۔۔۔“ پتا نہیں انہیں فجر کا نام پسند تھا یا کچھ اور جو وہ ہر وقت اُسے پکارتی رہتی تھی۔ نرم گرم بستر میں دبکی فجر نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ پہلا خیال ارسل کا آیا اور اس کے لبوں پر مسکان بکھر گئی۔
کتنا خراب موڈ تھا رات اس کا وہ روتی رہی تھی لیکن جیسے ہی ارسل سے بات ہوئی ساری اداسی دور جا سوئی تھی۔ اس نے ٹھیک بارہ بجے ارسل کو وش کیا تھا اور دوسری جانب وہ بھی اس کا منتظر تھا۔
”تم میرا سکون ہو فجر اور میں تمہارے بنا اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔۔“ اور فجر کو لگا تھا جیسے اماں کے دیے سارے زخم بھرگئے ہوں۔ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ چہرہ دمک رہا تھا۔ آج ارسل سے ملنا تھا آج اس کا برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنا تھا۔ بہت سارا کام تھا وہ تیزی سے بستر سے نکلی۔ نیند دور جا سوئی۔
سب سے پہلے اس نے بال باندھے اور پھر الماری کھول کر اپنا مٹی کا گلّا نکالا۔ جس میں اس نے تین ہزار جمع کر رکھے تھے۔ اس نے وہ گلّا زمین پر دے مارا۔ کھٹاک کی آواز ابھری اور اماں کی پھٹکار بھی۔
”فجر۔۔۔۔ اللہ تجھے غارت کرے کیا توڑ دیا صبح صبح؟؟“ لیکن فجر کو بھی پرواہ نہیں تھی۔ کم از کم آج وہ اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کچھ دیر وہ زمین پر بیٹھی پیسے اٹھا اٹھا کر گن رہی تھی جانتی تھی اچھے سے جانتی تھی تین ہزار ہی تھے لیکن پھر بھی گنتی کر رہی تھی جیسے گلے میں پڑے پڑے ڈبل ہوگئے ہوں۔ پورے تین ہزار ہی تھے۔ اس نے گہرا سانس لیا اور پیسے بیگ میں رکھ کر دوپٹہ لیتی کمرے سے باہر نکل آئی۔ برآمدے میں لگے پردے سردی کی شدت کو نہیں روک پائے تھے۔ ٹھنڈی ہوا اس کی ہڈیوں تک گھس گئی۔باورچی خانے سے کھٹ پٹ کی آواز آرہی تھی۔ اور دور دراز سے فجر کی اذان سنائی دے رہی تھی۔ اماں کوئلوں کی انگیٹھی جلانے کی کوشش میں تھی۔
”آجا فجر آگ جلا لے۔ مجھ سے پھونکیں نہیں ماری جاتیں۔ پانی بہت ٹھنڈا ہے گرم پانی سے وضو کرلیں گے۔“ اماں نے اسے دیکھتے ہی کہا اور فجر کے دل پر اوس سی پڑگئی۔
”اچھی بھلی گیس لگی تھی اماں بلاوجہ اتروا دی تو نے۔ بتا بھلا اس دور میں کوئلے کون جلاتا ہے۔“
وہ آج خوش خوش رہنا چاہتی تھی لیکن شاید خوش ہونا قسمت میں نہیں تھا۔
”ساتھ والی رکعیا آدھا بل مانگ رہی تھی لو بھلا ہم کدھر سے لائیں اتنے پیسے؟؟ تین لوگ ہیں ہم کبھی کبھی چولہا جلتا تھا لیکن لوگوں میں خوف خدا نہیں رہا۔۔“ اماں بڑبڑاتی اٹھ کھڑی ہوئی جبکہ فجر نے پہلے اپنے چمکتے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر کوئلوں کو۔۔۔۔اور پھر اس نے افسردہ سی آہ بھری۔ ٹھیک کہا تھا اما نے کنول کا پھول کیچڑ کی نذر ہی ہوتا ہے۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
فجر کی نماز کے لیے وہ کمرے میں گھسی تو پھر آٹھ بجے تک باہر نہیں نکلی۔ اماں اسے آوازیں دے دے کر تھک گئی۔
”فجر آجا باہر ناشتہ کرلے۔۔ فجر۔۔۔؟؟“
لیکن فجر نے نہ کوئی جواب دیا نہ وہ باہر نکلی۔ فی الوقت اس کا دال کے ساتھ گھی والی روٹی کھانے کا کوئی موڈ نہیں تھا اور وہ خوش اتنی تھی کہ موڈ خراب کرنا نہیں چاہتی تھی۔
”فجر۔۔نافرمان۔۔کبھی ماں کی پکار بھی سن لیا کر۔۔“
ٹھک کی آواز سے کمرہ کھلا اور ہاتھ میں تین چار شاپنگ بیگ تھامے وہ کمرے سے باہر نکلی۔ اب وہ اپنی گرم چادر کو درست کر رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی اماں کا حیرت سے منہ کھل گیا۔ خوشبوؤں میں رچی بسی فجر برآمدے میں کھڑی تھی۔سرخ لباس پہنے وہ خستہ ہال برآمدے میں کھڑی کیچڑ میں کھلا گلاب لگ رہی تھی۔
”یہ سب کیا ہے؟؟“ اتنے سارے شاپنگ بیگز دیکھ کر اماں سکتے میں چلی گئی۔ وہ دروازہ کھلنے کی آواز پر فٹافٹ باورچی خانے سے باہر نکلی تاکہ فجر کی تیاری دیکھ سکے۔ بوڑھی آنکھوں کی بینائی کم ہوچکی تھی لیکن فجر کے معاملے میں وہ آنکھیں مائیکروسکوپ بن جاتی تھیں۔
”اماں تجھے نظر آرہا ہے نا تو پوچھ کیوں رہی ہے؟؟“ وہ کوفت سے بولی۔ شاپنگ بیگز کو برآمدے میں بچھے تختے پر رکھتی وہ اپنا شولڈر بیگ اٹھانے اندر گئی۔ اماں نے فٹافٹ آگے ہو کر سارے بیگ ٹٹول لیے اور اندر موجود قیمتی ڈبے دیکھ کر اماں کی آنکھیں پھیل گئیں۔
”گھر دینے کے لیے تیرے پاس پیسے نہیں اور اس غیر مرد کے لیے تونے اتنا سب خرید لیا؟ اللہ کی مار تجھ پر فجر۔۔۔“ اماں برے دل سے بولی۔ چہرے پر غصہ ہی غصہ تھا۔
”اماں۔۔۔“ وہ کمرے سے نکلتی احتجاجاً چلائی اور پھر تیزی سے سارے بیگ جھپٹ لیے۔ وہ اس کے لیے قیمتی تھے کیونکہ وہ ارسل کے لیے تھے۔
„کبھی تو مجھے سکون کا سانس لینے دیا کر، کبھی تو کوئی جملہ بنا بددعا کے بولا کر۔۔“ فجر کا دل برا ہوا۔ ”اور یہ سب میری محنت کی کمائی ہے۔ تو نے پیسے نہیں دیے اور نہ یہ حرام کے ہیں۔ میں نے کمائے ہیں اور اِن پر میرا حق ہے۔۔“ وہ چادر درست کرتی تن فن کرتی برآمدے سے باہر نکلی اب وہ خارجی دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ ہیل کی ٹک ٹک گونج گئی۔ اماں نے ایک نظر اس کے نئے جوتے پر ڈالی۔ گلابی پاؤں سیاہ نازک سی سینڈل میں جگمگ کر رہے تھے۔
”کمائی یوں لٹانے کے لیے نہیں ہوتی اور جس کے لیے تو یہ سب کر ہی ہے وہ تجھے ایک دن آسمان سے زمین پر پٹخ دے گا ۔۔“
فجر کا دل کسی نے مٹھی میں پکڑ کر بھینچ دیا۔ اس کے قدم رک گئے اور چہرہ سرخ پڑ گیا۔ اس نے شکایتی نظروں سے پلٹ کر اماں کو دیکھا۔جبڑے بھنچ گئے۔ آنکھوں میں آنسوں تھے پر اماں کو کیا پرواہ؟؟ وہ نخوت چہرے پر سجائے کھڑی تھی۔ نرم گرم سی نکلتی دھوپ میں فجر کا چہرہ دہک رہا تھا۔ وہ خود کو کچھ غلط کہنے سے روک رہی تھی۔ برآمدے میں اماں پرانی سی گرم چادر خود پر لپیٹے ایستادہ تھی۔ دھوپ نکل آئی تھی لیکن ہوا میں ٹھنڈک تھی۔
”دعا کر اماں فجر مر جائے، فجر آج واپس ہی نہ آئے۔۔“ اس نے آخری نظر اماں پر ڈالی اور پھر تیزی سے ٹوٹا پھوٹا دروازہ پار کر گئی۔ ہیل کی آواز دور ہوتی گئی۔ جھریوں والا چہرہ لیے اماں کھڑی رہ گئی۔ اسے ذرا ملال نہیں تھا۔
اندر کمرے میں بستر پر لیٹے ابا کو کھانسی کا دورہ پڑا۔ سامنے دروازہ کے قریب ہی وہ کھڑی تھی۔ منار معراج۔۔!!
وہ ہنس رہی تھی۔
”روک ابا۔۔۔اب فجر کو روک کر دکھا۔۔۔“
وہ معراج الدین سے مخاطب تھی جبکہ اسے دیکھتے ہی ابا کو کھانسی کا ایسا دورہ پڑا کہ ان سے سانس لینا مشکل ہوگیا۔
✿••✿••✿••✿
آج اس نے لوکل چنگچی کی بجائے آٹو لیا۔ صبح کے نو بج رہے تھے۔ آج یونیورسٹی میں ایک ہی لیکچر تھا۔ لیکچر کے بعد وہ مارکیٹ جانے والی تھی تاکہ وہ گھڑی خرید سکے اور اس وقت آٹو میں بیٹھی وہ پورے دل سے مسکرا رہی تھی۔ ارسل کے لیے، لیے گئے گفٹس کو اس نے متاع جان کی طرح تھام رکھا تھا اور لبوں پر خوبصورت مسکان تھی۔
فجر معراج وہ لڑکی تھی جو آج کی تیزی سے بدلتی دنیا میں سروائیو کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی فیملی میں اماں ابا کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ نہ چچا نہ تایا۔ کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا خود کو اسی گھر میں پایا تھا۔ ابا کی پہلے دکان تھی جو اب کرائے پر دے دی تھی۔ اسی کے پیسوں سے گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ جبکہ فجر خود ذہین لڑکی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ڈھیروں خواب تھے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی۔کچھ بننا چاہتی تھی۔ میٹرک تک وہ سرکاری سکول میں پڑھی اور پھر کالج اسکالر شپ پر جاتی رہی۔ یونیورسٹی پہنچتے پہنچتے اس نے ایک کال سینٹر میں جاب شروع کرلی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کی کمیونیکیشن اچھی ہوگئی اور وہ جاب کو لے کر سنجیدہ تھی اس لیے اسکی سیلری کمیشن کے ساتھ اچھی بن جاتی تھی۔ وہ کوشش کرکے گھر بھی راشن ڈال دیتی ورنہ زیادہ تر خود پر خرچ کرتی تھی۔نفیس کپڑے، مہنگے جوتے اور قیمتی بیگ اسے سب پسند تھے۔
وہ کسی سے کچھ نہیں لیتی تھی جو تھا اپنی محنت سے تھا۔ یونیورسٹی میں اگر کوئی جان لیتا کہ مغرور فجر معراج کس محلے میں رہتی تھی اور اس کے گھر کے حالات کیسے تھے تو یقیناً تماشا بنتا پر فجر نے ایسا کوئی دوست نہیں بنایا جو گھر تک آئے اِس لیے وہ کامیابی سے آگے بڑھتی رہی۔ یونیورسٹی کا آخری سیمسٹر تھا۔ یونیورسٹی کے ان چار سالوں میں جانے کتنے ہاتھ اس کی جانب بڑھے۔ کتنے لوگ اس پر دل ہارے پر فجر معراج نے کسی کو گھاس نہیں ڈالی۔ آخر اس کا دل آیا بھی تو کس پر۔ ارسل برہان پر۔ ارسل برہان گردیزی جو چاند جیسا تھا۔ وہ اسے کمپنی کی ایک کانفرنس میں ملا تھا۔ رکھ رکھاؤ والا ارسل اسے پہلی ہی نظر میں پسند آگیا اور پھر ان کا رابطہ سوشل میڈیا پر ہوا۔ جانے کیوں وہ اس کے دماغ سے چپک گیا تھا وہ چاہ کر بھی اس سے پیچھا نہیں چھڑا پائی تھی۔
پسندیدگی آہستہ آہستہ کب محبت میں بدلی فجر کو پتا ہی نہیں چلا۔ اب ارسل اس کا سب کچھ تھا۔ وہ نہیں تھا تو کچھ نہیں تھا۔
ڈیپارٹمنٹ کی راہداری میں، سرخ لباس پہنے، فجر معراج کو آگے بڑھتے جانے کتنے لوگوں نے دیکھا۔ کتنی ستائش بھری نگاہیں تھیں، کتنی حسرت بھری، وہ خود پر اٹھنے والی ہر نظر پہنچانتی تھی لیکن اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ اگر کسی پر ٹھہر گئی تھی تو وہ ارسل برہان تھا۔ وہ اس کا مان تھا وہ اس کا غرور تھا وہ اس کا سب کچھ تھا۔
وہ اس کے بارے میں سب جانتا تھا اور فجر کا فنانشل اسٹیٹس جان کر بھی اس کی محبت میں کمی نہیں آئی تھی اور فجر نے اُسے اُسکے فنانشل اسٹیٹس کو دیکھ کر دل نہیں دیا تھا وہ گردیزی نہ بھی ہوتا تو فجر کے لیے وہی سب ہوتا جو اب تھا۔
”جانے کس کی لاٹری نکلے گی۔ ہمارے ہاتھ تو یہ بلبل آئی نہیں۔۔“ لڑکوں کے گروپ میں کسی نےسرگوشی کی۔
“وہ منگنی شدہ ہے۔“ کوئی دوسرا بولا۔ وہ خود کو انگیجڈ کہتی تھی۔ وہ ارسل سے کمیٹڈ تھی اور حقیقتاً نہیں چاہتی تھی کوئی اس کی جانب بڑھے اس لیے سب جانتے تھے فجر معراج انگیجڈ تھی۔
یونیورسٹی میں لیکچر کے بعد اس نے اپنے پراجیکٹ پر کام کیا پھر ایک ریسٹورینٹ فون کرکے برتھ ڈے بکنگ کروائی اور پھر مارکیٹ کے لیے نکل پڑی۔ تین بجے ارسل اسے پک کرنے والا تھا اور اس سے پہلے اسے سب کچھ ریڈی رکھنا تھا۔ اب وہ گھڑیوں والی ایک چمچماتی دکان میں کھڑی تھی۔
اس نے اس مہینے کی پوری سیلری ارسل پر لگادی تھی۔ اس نے پتا نہیں کیا کچھ کیا تھا۔ ارسل کے ساتھ اس کا یہ دوسرا برتھ ڈے تھا۔ وہ سے ہر صورت اسپیشل بنانا چاہتی تھی۔
”کیا ایسا نہیں ہو سکتا میں آپ کو آدھی پیمنٹ کچھ دن بعد کردوں؟؟“ اس نے دکاندار سے پوچھا۔
”نہیں میڈم ایسا تو پاسیبل نہیں۔ ہاں آپ آدھی پیمنٹ اب کردیں اور رسید لے جائیں باقی پیمنٹ جب ہوگی آکر گھڑی لے جائیے گا۔۔ “ دکاندار نے مسئلے کا حل پیش کیا۔ فجر نے بےساختہ لب کچلے۔
”نہیں مجھے گھڑی آج ہی چاہیے۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
”آپ کا بجٹ کیا ہے؟؟“
”ابھی میرے پاس تین ہزار ہے۔۔“ اسے بتاتے ہوئے بھی شرمندگی ہوئی۔ دکاندار کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
”میرے پاس اسی ڈیزائن میں Versace کی سب سے سستی کاپی ہے جو تین ساڑھے تین ہزار تک مل جائے گی۔۔“ دکاندار نے حل پیش کیا۔ فجر کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
دکاندار نے اسے گھڑی دکھائی وہ اسے پسند آگئی۔
”ٹھیک ہے آپ اسے پیک کردیں۔۔“ آنکھیں اب جگمگ کررہی تھیں۔ وہ گھڑی پیک کروارہی تھی جب اس کا فون تھرتھرایا۔ ارسل کا فون تھا۔ دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔ چہرے پر سارے رنگ پھیل گئے۔
”السلام علیکم!“ اس نے فون ریسیو کرتے کان سے لگایا۔
”وعلیکم السلام! کہاں ہو۔۔۔؟؟“ ارسل کی آواز ابھری۔
”میں مارکیٹ ہوں۔ آپ کدھر ہیں؟؟“ دھڑکتے دل پر قابو پاتے بتایا۔
”میں آرہا ہوں۔ مجھے لوکیشن شیئر کردو۔۔۔“
دل پھول کر غبارہ ہوا۔ وہ اپنی اہم میٹنگ چھوڑ کر آرہا تھا۔ وہ فجر معراج کے لیے آرہا تھا۔۔۔۔ ہوا خوشبوؤں سے رچ بس گئی۔
”بھائی ذرا جلدی کریں۔۔“ لوکیشن شیئرکرکے اس نے دکاندار سے کہا۔ جس نے ایک گھڑی سمیت ایک خوبصورت سا بیگ اسے تھمایا۔
”شکریہ۔۔۔“ پیمنٹ کرتی وہ دکان سے باہر نکل آئی۔ اب اس کا رخ اس کی بیکری کی جانب تھا جو قریب ہی تھی اور جس کی لوکیشن اس نے شیئر کی تھی۔ پانچ منٹ اسے کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑا۔ اور پھر لمبی سی سیاہ گاڑی اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ ارسل باہر نکلا اور اسے دیکھ کر فجر کے دل نے بیٹ مس کی۔
وہ اب اس سے بیگز لے کر گاڑی رکھ رہا تھا۔ اب وہ اس کے لیے دروازہ کھول رہا تھا۔وہ اندر بیٹھ چکی تھی۔ اب وہ گاڑی آگے بڑھا چکا تھا۔
”ہیپی برتھڈے۔۔۔“ وہ دلکشی سے بولی اور اسی دلکشی سے وہ مسکرادیا۔ نک سک سا تیار ارسل برہان اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔
”سوری اگر میری وجہ سے ویٹ کرنا پڑا۔ بتاؤ اب کہاں چلیں۔۔۔“ نسبتاً ایک پرسکون سی جگہ پر گاڑی روکنے کے بعد وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔“ وہ مسکرایا تو وہ فجر بھی مسکرادی۔
”دیکھیں میں آپ کے لیے کچھ لائی ہوں۔۔“ وہ اب پیچھے رکھے بیگ اٹھا رہی تھی۔ اس کے لہجے میں شیرنی گھلی تھی۔ سب کو کاٹ کھانے والی فجر معراج کے لہجے میں ارسل کے لیے صرف محبت ہوتی تھی۔
”لگتا ہے ساری سیلری مجھ پر اڑادی ہے۔۔“ وہ اتنے بیگز کو دیکھتے بولا۔ ”یہ سب لانے کی کیا ضرورت تھی فجر۔ میرا گفٹ تم ہو۔۔“ اسے حقیقتاً برا لگا۔ اور اس کی بات سن کر فجر کا چہرہ گلنار ہوا۔
”یہ دیکھیں۔۔“ وہ اس کی بات کو نظرانداز کرتی اب باکس اسے تھماتے بولی۔ وہ اب پوری توجہ سے ایک ایک باکس اوپن کر رہا تھا۔ پرفیوم تھا، کی چین تھی، کچھ میموریز باکس تھے۔ ایک بہت بڑا پورٹریٹ تھا جو اس نے اپنے فیورٹ آرٹسٹ سے بنوایا تھا اور اسے کیسے وہ سارا دن اٹھائے پھرتی رہی تھی یہ وہی جانتی تھی۔ اب وہ گھڑی دیکھ رہا تھا۔
”اچھی لگی آپ کو؟؟“ اسے اشتیاق سے گھڑی کو دیکھتے وہ پوچھنے لگی۔
“بہت اچھی ہے۔۔“ وہ بشاشت سے مسکرایا۔
”آپ اسے پہنیں گے؟؟“ دھڑکتے دل سے پوچھا۔
”ابھی پہن لیتے ہیں۔۔۔“ سیاہ ڈریس شرٹ میں ملبوس ارسل برہان یہ کہتا کتنا اچھا لگا تھا۔ اب وہ اپنی کلائی میں بندھی گھڑی اتار رہا تھا۔ اور فجر ساکت سی اسے دیکھے گئی۔ اب وہ اپنی گھڑی اتار کر سائیڈ پر رکھ چکا تھا۔ اب وہ فجر کی لائی گھڑی پہن رہا تھا۔
”دیکھو اچھی لگ رہی ہے نا۔۔“ وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔
”فجر۔۔۔“ اور اس کی ڈبڈبائی آنکھیں دیکھ کر وہ ساکت رہ گیا۔ ”رو کیوں رہی ہو پاگل۔۔۔؟؟“ فجر کے آنسوں اس کے دل پر گر رہے تھے اور فجر نے نفی میں سرہلایا۔
”ارسل تمہارا ہے فجر۔ یہ جان لو۔“ اس نے فجر کے آنسوں پونچھتے اس کا گال تھپتھپایا اور فجر نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”مجھے لگتا ہے میں اب نہیں جی پاؤں گی۔ آپ کے بنا تو بالکل نہیں۔۔“ وہ رودی۔
”یار میرے برتھڈے پر تم رو رہی ہو یہ ظلم نہ کرو۔۔“ اور وہ مسکرادی۔ ”مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ اب بتاؤ کہاں جانا ہے؟؟“ اس کے بیچارگی سے کہنے پر فجر نے مسکرا کر ریستوران کا بتایا اور ارسل نے گاڑی آگے بڑھادی۔ اب گاڑی میں خاموشی تھی۔
”ارسل ایک بات بتائیں۔۔۔“ وہ اب اس کی گھڑی کو اٹھائے الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔
”آپ کی یہ گھڑی کتنے کی ہے؟؟“ سرسری سا سوال تھا۔
”ہوگی اڑھائی تین لاکھ کی۔۔۔“ اور فجر کو لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی۔ اس شخص نے اپنی تین لاکھ کی گھڑی اتار کر اس کی دی تین ہزار کی گھڑی پہن لی تھی۔ دل سینے میں ہی رک گیا تھا۔
”بائے دا وے میری گھڑی اب یہ ہے جو میں نے پہن رکھی ہے۔۔“ وہ خوشدلی سے بولا تو فجر بس مسکرا کر رہ گئی۔
✿••✿••✿••✿
سرمئی شام دھیرے دھیرے پر پھیلانے لگی۔ ہوا تیز ہوئی تو دھند اتارنا شروع ہوگئی۔ باہر گاڑیاں تیزی سے گزر رہی تھیں اور بڑی سی گلاس وال کے پار وہ دونوں ایک خوبصورت Ambience والے ریستوران کے کپل ایریا میں بیٹھے تھے۔ کچھ دیر پہلے ہی ارسل نے کیک کاٹا تھا اور اب کھانا سرو کیا جارہا تھا۔ اچانک گلاس ڈور اوپن ہوا اور ایک لڑکا اندر داخل ہوا۔ اس کا حلیہ وہاں بیٹھے سبھی لوگوں سے مختلف تھا۔ وہ سیاہ جوگرز پر شارٹ ٹراوذر پہنے ہوئے تھا جو گھٹنوں سے بمشکل نیچے آرہا تھا۔ سیاہ ٹی شرٹ پر سیاہ لیدر کی جیکٹ اور کندھے پر سیاہ بیگ تھا۔ سر پر سیاہ کیپ جمی تھی جس میں اسکا آدھا چہرہ چھپا ہوا تھا اور کیپ کے اوپر سے کانوں پر ہیڈ فون جما تھا ہیڈ فون سے منسلک ایک لمبی وائر اس کے بیگ تک جارہی تھی۔ اس کے گلے میں کیمرہ لٹکا تھا جبکہ ہاتھ میں فون تھا۔۔۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ حلیہ اور نین نقش دونوں سے مقامی نہیں لگتا تھا۔ اسے دیکھتے ہی فلور مینیجر اس کی جانب بڑھا اب وہ انگلش میں اسے کوئی بات کر رہا تھا۔
”You can check my Account…this is William Joseph”
وہ فلور مینیجر کو فون پر کچھ دکھا رہا تھا۔ پھر وہ ہنس دیا۔
“Thank You so Much”
فلور مینیجر چلا گیا۔ اب وہ اپنے کیمرہ میں ریستوران کی مختلف زاویوں سے لی گئی پکچرز کلک کر رہا تھا۔ اب وہ ویڈیو بنا رہا تھا اور پھر اس کیمرہ میں گلاس وال کے قریب بیٹھی سرخ لباس والی لڑکی نظر آئی۔ وہ ارسل کی کسی بات پر ہنس رہی تھی۔
“Beauty in Red”
اس نے کمینٹ کیا اور پھر کیمرے کا رخ موڑ لیا۔اسے انسانوں کو کیمرہ میں ریکارڈ کرنے کا شوق نہیں تھا۔ اب وہ دوسری جانب رکھی میز کرسیوں میں سے نسبتاً ایک پرسکون جگہ پر بیٹھ گیا۔ اس نے کیمرہ اور اپنا فون میز پر رکھا اور پھر کندھے سے بیگ اتار کر اس میں سے کچھ نکالا۔ وہ ایک مشین تھی۔ سیاہ رنگ کی ٹیپ ریکارڈر جیسی ایک ڈیوائس جس میں ہیڈ فون کی وائر کنیکٹ تھی۔ اس نے بٹن دبایا اور اس مشین کو میز پر رکھ دیا۔ اب اس نے آنکھ بند کرکے کرسی سے پشت ٹکالی۔ ہیڈ فون سے اب اُسے عجیب قسم کی وائبریشنز سنائی دے رہی تھیں۔ ایسی آوازیں جو شاید ہی کبھی کسی نے سُنی ہوں۔
✿••✿••✿••✿
”کیا بات ہے آج بہت خوش ہو؟؟“ اس کے چہرے سے پھوٹتی چمک اور اس کی کھلکھلاتی ہنسی پر ارسل نے بالآخر پوچھ ہی لیا۔
”کچھ بتانا ہے آپ کو۔۔“ فجر پرجوش سی بولی۔ ارسل متوجہ ہوا۔ اس کا فون، والٹ اور گاڑی کی چابی میز پر ایک جانب رکھے تھے۔
”میں نے ایک اچھی کمپنی میں جاب کے لیے انٹرویو دیا تھا اور میری سلیکشن ہوگئی ہے۔انہوں نے اچھا آفر دی ہے۔“ وہ چہک رہی تھی۔ دنیا میں اگر کہیں جنت تھی تو فجر معراج کے لیے بس یہی تھی۔
”ارے واؤ! میری فجر تو تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔۔“ ارسل کی ایسی تعریف پر وہ جھینپ گئی۔ رخسار گلاب ہوئے۔ پلکیں لرز اٹھیں اور ارسل کے لیے یہ نظارہ بہت حسین تھا۔
”اور یونیورسٹی؟؟“ پاستہ کی پلیٹ میں کانٹا ہلاتے ارسل نے اگلا سوال کیا وہ کھانا کھا رہا تھا لیکن متوجہ اس کی طرف تھا جبکہ فجر کی تو بھوک اسے دیکھتے ہی مٹ جاتی تھی۔ اسے کچھ ہوش نہیں رہتا تھا۔
”بس پراجیکٹ چل رہا ہے۔ کچھ ہی مہینے ہیں۔ اسکے بعد یونیورسٹی ختم۔۔“
”اور اماں بابا کیسے ہیں۔۔؟؟“ چمچ منہ تک لے جاتی فجر کا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا۔ اس کا حلق تک کڑوا ہوا۔ اگر وہ بتادیتی کہ اُسکی اماں اُسکی محبت کو کتنی بد دعائیں دیتی تھی تو سامنے بیٹھے ارسل کا دل ٹوٹ جاتا۔
”وہ بھی ٹھیک ہیں۔۔“ بس اتنا ہی کہہ پائی۔ چہرے کی شادابی ماند پڑ گئی۔
”ان کی باتوں کا غصہ مت کیا کرو۔۔“ وہ اب اسے سمجھا رہا تھا فجر خاموش رہی۔ ”اور میرے پاس بھی تمہارے لیے ایک خوشخبری ہے۔۔“ ارسل کے پراسرار سے انداز پر فجر کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ اب سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اور ان سے کچھ فاصلے پر دوسری جانب بیٹھے شخص کو ویٹر نے مخاطب کیا۔
”سر یور کافی۔۔۔“ ویٹر اسے پکار رہا تھا جبکہ وہ ہیڈفون سے ابھرتی آواز میں کھویا تھا۔
”سر۔۔۔“ ویٹر نے کافی میز پر رکھتے پھر سے پکارہ۔ اس بار اس نے آنکھیں کھولیں۔
”او ایم سوری۔۔۔اینڈ تھینک یو۔“ وہ اب سیدھا ہو بیٹھا۔ ویٹر کافی رکھ کر چلا گیا۔ ریستوران برقی قمقموں سے سجا ہوا۔ دیواروں اور چھتوں سے لٹکتے برقی قمقمے وہاں کے پرسکون ماحول کو چار چاند لگا رہے تھے اور تبھی اس کی نظر سامنے اٹھی۔ وہ کپل ابھی تک وہیں بیٹھا تھا۔ لڑکے کی اس کی جانب پشت تھی۔ وہ اب ایک نازک سی مخملی ڈبیا میز پر رکھ رہا تھا۔ لڑکی نے بے ساختہ اپنے منہ پر دونوں ہاتھ رکھے۔ اس کی آنکھیں حیرت اور خوشی سے پھیل گئیں۔
وہ اندازہ نہیں لگا پایا کہ برقی قمقموں کی چمک زیادہ تھی یا اس لڑکی کے چہرے سے پھوٹنے والی روشنی۔ پھر وہ سر جھٹک کر رخ موڑ گیا۔
”او مائے گاڈ ارسل آپ کے پیرنٹس مان گئے؟؟“ وہ بے یقینی سے چمچماتی اس ڈائمنڈ کی رنگ کو دیکھتے بولی۔ اس نے کہا تھا جب وہ اپنے گھر والوں کو منا لے گا تو اس کے لیے رنگ لائے گا اور آج وہ لے آیا تھا۔
”پوری طرح سے تو نہیں لیکن وہ تم سے ملنے کو راضی ہوگئے ہیں۔۔“ وہ بھی اتنا ہی خوش تھا اور تبھی اس کا فون بج اٹھا۔
”بابا کی کال ہے۔۔“ اس نے ایکسکیوز کرتے فون اٹھایا۔
”جی بابا؟؟“ وہ ادب سے بولا۔ دوسری برف سے کچھ پوچھا گیا تھا جبکہ فجر ڈائمنڈ کی رنگ چھوڑ کر اسے دیکھ رہی تھی۔
”باہر ہوں۔۔“ اس نے جواب دیا۔ آگے سے پھر کچھ پوچھا گیا۔
”فجر کے ساتھ۔۔۔“ دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔
”جی میں کچھ دیر تک آتا ہوں۔۔“ فون بند ہوگیا اور ارسل نے اپنا اٹکا سانس بحال کیا۔ وہ اپنے باپ کی بہت عزت کرتا تھا بلکہ کسی حد تک ڈرتا بھی تھا پر وہ اپنی محبت کا مقدمہ بھی لڑ رہا تھا اور یہ مشکل کام تھا۔
”غصہ تو نہیں تھے وہ؟؟“ فجر نے دھڑکتے دل پر قابو پاتے پوچھا۔
ارسل نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ سیاہ گرم شال کو قدموں پر پھیلائے سیاہ بالوں کے گھیرے میں چمکتے چاند سے چہرے والی فجر معراج کئی متضاد کیفیات کا شکار تھی۔
”نہیں۔۔۔“ وہ مسکردایا۔
”یہ رنگ آپ مجھے انگیجمنٹ پر پہنائیے گا۔“ اس نے مخملی ڈبیا ارسل کی جانب کھسکادی۔ جسے ارسل نے کچھ سمجھتے اثبات میں سرہلایا۔
”اگر آپکے بابا اسٹیٹس پر کوئی بات کریں تو آپ انہیں بتا دیجیے گا کہ میں نے اسٹیٹس دیکھ کر آپ سے محبت نہیں کی اور میں مستقبل کی ایک بہت بڑی فیشن ڈیزائنر بننے والی ہوں اور میں تب تک ویٹ کر سکتی ہوں مجھے شادی کی جلدی نہیں ہے۔۔“ وہ پورے یقین سے بولی تو ارسل اس کی بات پر بے ساختہ مسکرادیا۔
سامنے ٹیبل پر موجود لڑکا اب ویٹر سے کوئی بات کر رہا تھا۔ اس نے رستوران کی سفید اور ہلکی گلابی رنگ کی دیواروں کی تعریف کی۔ ویٹر اب مینیجر کو بلا لایا تھا۔ وہ اس سے بل نہیں لینا چاہتے تھے پر وہ دینے پر بضد تھا۔
”میں کل پھر آؤں گا۔ کافی بھی پیوں گا پر آج آپ کو بل لینا ہوگا۔۔“ اس نے بل کے ساتھ ساتھ ویٹر کو ٹپ بھی دی۔ فجر کی سرسری سی نظر اٹھی اور اس نے عجیب وغریب حلیے والے لڑکے کو دیکھا جو اب اپنا بیگ کندھے پر لٹکاتے اپنا کیمرہ اٹھا رہا تھا اور پھر وہ باہر نکل گیا۔
”میں یہاں بیٹھا ہوں میری موجودگی میں کسی اور کو مت دیکھو فجر۔۔“ ارسل نے شکوہ کیا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
✿••✿••✿••✿
”میں تمہیں گھر تک چھوڑ سکتا ہوں۔“ گلی کے سامنے گاڑی روکتے ارسل نے پیشکش کی۔
”پہلی بات آپکی یہ لمبی گاڑی ہماری تنگ سی گلی میں داخل نہیں ہو گی اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ لمبی گاڑی دیکھ کر میرے محلے والوں کی اتنی لمبی زبان نکل آئے گی۔۔“ فجر نے آنکھیں مٹکائیں تو ارسل نہ چاہتے بھی ہنس دیا۔ وہ پریشان تھا لیکن اسے محسوس نہیں کروانا چاہتا تھا۔
”ٹھیک ہے اپنا خیال رکھیے گا۔۔“ وہ شال اچھے سے اوڑھتی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی۔
”اپنا سامان تو لے لو۔۔“ ارسل نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھے بیگ اٹھا کر اسے پکڑائے۔ وہ خالی ہاتھ نہیں آیا تھا اس کے لیے بیکری کی کافی چیزیں لایا تھا۔ فجر نے بیگ تھام لیے۔ دھند پڑرہی تھی اور اسٹریٹ لائٹس کی مدھم روشنی میں بمشکل ہی کچھ نظر آرہا تھا۔ سامنے نکڑ والی ایک کریانے کی دکان کھلی تھی۔
”اپنا خیال رکھنا۔۔۔“ گاڑی کا دروازہ بند کرتے وقت اسے ارسل کی آواز سنائی دی۔ فجر نے دیکھا تو اسے ارسل کے چہرے پر پریشانی نظر آئی۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا محبت سے حسرت سے۔
شاید وہ آنے والے طوفان سے واقف تھا۔
”اللہ حافظ۔۔“ وہ گلی میں مڑگئی۔ ٹک ٹک کی آواز رات کے سناٹے میں گونجی گئی۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے پر یوں لگتا تھا جیسے گیارہ بج گئے ہوں۔ وہ رات نو بجے جاب سے واپس آتی تھی لیکن آج اس نے چھٹی کی تھی۔ گاڑی میں ہیٹر چل رہا تھا اور اب باہر نکل کر اسے سردی کا احساس ہوا۔ ٹھندی ہوا ہڈیوں میں گھس رہی تھی۔ اس نے کانپتے ہوئے گھر کا گیٹ بجایا۔جب کوئی نہ آیا تو اسے پھر سے بجانا پڑا۔ کچھ دیر بعد اسے اماں کی آواز سنائی دی۔ وہ گیٹ کھول رہی تھی۔
”السلام علیکم!“ اس نے گھر میں داخل ہوتے سلام کیا جبکہ اماں کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ وہ ہاتھ میں تسبیح لیے خوشبوؤں میں رچی بسی فجر کو گھور رہی تھی۔ فجر بھی انہیں نظر انداز کرتی آگے بڑھ گئی۔ آج اس کی چال میں فخر تھا مان تھا غرور تھا۔ ارسل کے گھر والے اس سے ملنے کو تیار تھے۔
اماں اپنی تمام بد دعاؤں سمیت ہارنے والی تھی۔
اس نے کمرے میں آکر سب سے پہلے سامان رکھا اور پھر کپڑے بدل کر منہ ہاتھ دھو کر جب وہ واپس کمرے میں آئی تو اماں اتنا کھانے پینے کا سامان دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ تمام ڈبے کھول کر دیکھ چکی تھی۔
بالوں کو اچھے سے فولڈ کیے دھلے دھلائے چہرے کے ساتھ وہ اب بھی اتنی ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔
”یہ شریف لڑکیوں کے گھر آنے کا وقت ہے؟؟“ اماں کو کہنے کو یہی ملا تھا۔ فجر نے ایک نظر اماں کو دیکھا اور پھر گھڑی دیکھی۔
”ابھی آٹھ بجے ہیں روز مجھے آفس سے آتے آتے نو بج جاتے ہیں اماں! تب شرافت کہاں ہوتی ہے۔“ اس نے بمشکل خود کو کچھ غلط کہنے سے روکا۔ اسے اپنی اماں کے دہرے معیار کی سمجھ نہیں آتی تھی۔
”تو نہ کر کمائی۔ ہم نے اسے آگ لگانی ہے؟؟“ اماں نے شاید زہر اگلنا ہی سیکھا تھا۔
”ہاں تاکہ میں گھٹ گھٹ کر مر جاؤں۔۔“ وہ چیزیں سمیٹتی بڑبڑائی۔ فی الوقت وہ بحث کے موڈ میں نہیں تھی۔
”جانتی ہے محلے والے ایسی لڑکیوں کو کیا سمجھتے ہیں جو یوں سج دھج کر رات کو کسی غیر مرد کی گاڑی سے اُتریں؟؟“ اماں نے لتاڑنا چاہا۔
”اماں میں محلے کی نظروں میں ویسے بھی شریف نہیں ہوں تو مجھے فرق نہیں پڑتا وہ کیا سوچتے ہیں۔ تجھے بھی نہیں پڑنا چاہیے تو جانتی ہے مجھے۔۔“ وہ پھر بڑبرائی۔
”ہاں تجھے کیوں فرق پڑے گا تجھے ماں باپ کی عزت کی کیا پرواہ؟؟“ اماں بھی باز نہیں آتی تھی۔ وہ تسبیح گھما رہی تھی اور ساتھ ساتھ اس کی کلاس لے رہی تھی۔
”اماں۔۔۔“ وہ احتجاجاً بولی۔ ہاتھ میں پکڑا بیگ وہ الماری میں رکھ رہی تھی پر اماں کے الفاظ تیر کی طرح لگتے تھے۔
”ارسل کے گھر والے مان گئے ہیں وہ جلد رشتہ لینے آئیں گے۔۔“ اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خبر اماں کو دی۔ اماں کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتی رہی۔ ایک پل کے لیے الفاظ گم ہوگئے۔ جبکہ فجر اب الماری کھولے چیزیں سیٹ کر رہی تھی۔
”محلے والوں کی زبانیں بند ہو جائیں گی اماں جب ارسل بارات کے کر آئے گا۔۔“ مان تھا، فخر تھا کیا کچھ نہیں تھا۔
”ہاں دیکھتی رہ اُسکے خواب۔۔۔“
”ارسل میرا خواب نہیں میری زندگی ہے اماں۔۔“
”ارسل تیری موت ہے فجر۔۔۔“ اماں کو ذرا ترس نہ آیا۔
تہہ لگے کپڑے الماری میں رکھتی فجر کے ہاتھ کانپ اٹھے۔ اس کا دل رک سا گیا۔
”اماں ایسے نہ بولا کر۔“ اس نے الماری کا پٹ زور سے بند کیا۔ آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
”اسے کھونے کا خوف پہلے پیچھا نہیں چھوڑتا۔۔“ وہ بولی تو آواز بھرا گئی۔ پتا نہیں اماں اسکے احساسات کیوں نہیں سمجھتی تھی۔ اس نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا تھا ایک محبت ہی تو کی تھی۔ پھر اماں ایسی باتیں کیوں کرتی تھی؟؟
”جن چیزوں کے کھو جانے کا ڈر ہو نا اُنکا چھن جانا یقینی ہوتا ہے۔۔!!“ اماں کا لہجہ عجیب تھا پر فجر کے دل کو پہلے ہی ہاتھ پڑچکا تھا۔ اماں نے اسکی ساری خوشی ملیا میٹ کردی تھی۔ وہ اب بیڈ پر بیٹھی آنسوں بہانے لگی۔ اماں نے تاسف سے اسے دیکھا۔
”دیکھ فجر یہ تیرا پہلا اور آخری موقع ہے۔ اگر اس لڑکے کے گھر والے مان گئے اور وہ رشتہ لے آیا تو تیری قسمت۔ پر میں تجھے دوسرا موقع نہیں دوں گی۔ تجھے بلقیس کے لڑکے سے شادی کرنی ہوگی۔۔“ اماں نے جیسے حکم دیا۔ وہ کچھ نہ بولی۔ اپنی سسکیوں کو ضبط کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ اماں اسے چھوڑ کر چلی۔ دروازہ بند ہوگیا۔ کچھ دیر پہلے وہ سینکڑوں برقی قمقموں میں بیٹھی تھی اور اب پلستر اتری دیواروں والے کمرے میں تھی جس میں ایک چھوٹے بلب کی زرد روشنی کمرے کے اندھیرے کو کم نہیں کر پارہی تھی۔ کتنی ہی دیر وہ یوں بیٹھی رہی۔ اس کے پاؤں نیلے پڑگئے۔ سردی کی شدت سے دانت بجنے لگے تو وہ اٹھی اور بستر سیدھا کرکے لیٹ گئی۔ ارسل کا ابھی تک کچھ میسج نہیں آیا تھا۔
دوسری طرف اماں اپنے کمرے میں جاچکی تھی۔
”اس پر اتنی سختی نہ کر۔“ ابا بولا۔
”تو چپ کر فجر کے ابا۔۔۔“ اماں نے ابا کا منہ بند کیا۔ ابا کچھ پل کے لیے چپ ہوگیا۔
”مجھے لگتا ہے میرا وقت آگیا ہے یا فجر کا وقت آگیا ہے۔۔“ وہ بولا تو لہجہ عجیب تھا۔ اماں نے چونک کر اسے دیکھا۔ معراج دین ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا ٹی بی کے علاوہ جانے کونسی بیماری تھی جو انہیں ٹھیک نہیں ہونے دیتی تھی۔
”وہ مجھے دِکھائی دینے لگی ہے۔ وہ مجھ پر ہنستی ہے۔ وہ دیکھ سامنے دروازے کے پاس کھڑی ہے۔ وہ دیکھ منار کھڑی ہے۔۔“ ابا نے کپکپاتا ہاتھ اٹھا کر انگلی سے دروازے کی جانب بمشکل اشارہ کیا۔ اماں حیرت سے کبھی ابا کو تو کبھی دروازے کو دیکھ رہی تھی جہاں کوئی نہیں تھا جبکہ ابا کے چہرے کی رنگت خوف اور وحشت سے پھیکی پڑگئی تھی کیونکہ وہ تالیاں بجاتے ابا پر ہنس رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
ارسل جب گھر پہچا تو ساڑھے آٹھ کا وقت تھا۔ گاڑی گیراج میں کھڑی کرتے وہ اندر کی جانب بڑھا۔ فجر کے دیے گئے سارے گفٹس اس نے گاڑی میں ہی رہنے دیے تھے۔ جانتا تھا اندر کا ماحول کیسا تھا۔
وہ ڈرائنگ روم سے گزرتے لاؤنج میں آیا تو سبھی گھر والوں کو وہاں موجود پایا۔ گھر میں خلاف معمول زیادہ خاموشی تھی۔
”السلام علیکم“ اس نے ہولے سے سلام کیا۔ دادی اماں، برہان گردیزی، مسز برہان، اس کی چھوٹی بہن سہانا اور چھوٹا بھائی صائم سب وہاں تھے۔ مسز برہان اور سہانا دونوں سر پر دوپٹہ جمائے سلیقے سے بیٹھی تھی۔ مسز برہان زیرلب کچھ پڑھ رہی تھیں۔ اس کے سلام کا جواب سب نے مشترکہ دیا تھا۔
”خیریت ہے آج سب یہاں؟؟“ وہ دھڑکتے دل پر قابو پاتے بولا۔
”ہاں تمہارا ہی انتظار ہورہا تھا۔۔۔“ برہان گردیزی نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔ سر پر ٹوپی اوڑھے اور شلوار قمیص پہنے وہ سرد آنکھوں سے اسے گھور رہے تھے۔
”صائمہ پوچھو اپنے سپوت سے کہاں تھا یہ؟؟“ انہوں نے مسز برہان کو مخاطب کیا۔ مسز برہان نے التجائی نظروں سے ارسل کو دیکھا۔ وہ آج اس کے برتھ ڈے کے دن کوئی تماشہ نہیں چاہتی تھیں۔ دونوں ماں بیٹیوں نے مل کر کتنی تیاری کی تھی۔ ڈنر بنایا تھا پر یہاں سب الٹ ہوگیا تھا۔
”بتایا تھا آپ کو۔۔“ وہ براہ راست برہان گردیزی سے بولا۔
”ہاں بتایا تھا موصوف ایک لڑکی کے ساتھ تھا۔ جس سے یہ عشق کرتا ہے ایک بےپردہ بےحیا لڑکی سے۔۔“ ان کے لہجے میں حقارت ہی حقارت تھی۔
”بابا۔۔۔“ وہ احتجاجاً چلایا۔ آنکھوں اور چہرے پر صدمہ واضح تھا۔
”میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اُس لڑکی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ لڑکی جس کے سر پر دوپٹہ تک نہیں تھا۔۔“
وہ کڑکے لہجے میں بولے جبکہ مسز برہان اور سہانا ان کی آواز پر کانپ اٹھتی تھیں۔ ارسل نے بےیقینی سے اپنی ماں کو دیکھا۔ انہوں نے بتایا تھا اس کا باپ فجر سے ملنا چاہتا تھا رشتہ لے کر وہ بعد میں جاتے۔ مسز برہان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے چپ رہنے کی تلقین کی۔
”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے فجر ایسی نہیں ہے وہ بہت اچھی لڑکی ہے آپ ایک بار مل لیں یقیناً آپ کو اچھا لگے گا۔۔“ اس نے لہجے کو حد درجہ نرم رکھنے کی کوشش کرتے اپنی عرضی رکھی۔ جانتا تھا وہ انکے فیصلے کے خلاف نہیں جا سکتا تھا اس لیے ان کا ماننا بہت ضروری تھا۔
”ہمارے گھر کی عورتوں کو آج تک کسی غیر محرم نے نہیں دیکھا اور وہ لڑکی سرعام سج سنور کر بیٹھی تھی۔۔“ انہوں نے پہلو بدل کر بےچینی سے ٹہوکا دیا۔
”چلو بس کرجاؤ برہان۔ بچے کے خاص دن کو برا مت بناؤ۔۔“ دادی اماں بالآخر بول پڑیں۔
”کل بلاؤ اس لڑکی کو میں ملنا چاہتا ہوں اس کے بعد فیصلہ ہوگا۔۔“ برہان گردیزی اپنا فیصلہ سناتے اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ ارسل حیران رہ گیا۔
”کل۔۔۔؟؟“ بےساختہ اس کے لبوں سے پھسلا۔
”کیوں کل نہیں آسکتی؟؟“ وہ بھڑکے۔
”نہیں نہیں ٹھیک ہے وہ آجائے گی۔۔“ وہ لبوں پر زبان پھیرتے بولا۔ سہانا اور مسز برہان کے چہرے پر خوشی کی رمق ابھری۔ وہ بیٹے کی خوشی دل سے چاہتی تھیں۔
✿••✿••✿••✿
آج کے دور میں جہاں دو لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہونا سب سے مشکل فعل ہے وہیں اگر دو لوگ مخلص ہوجائیں تو ان کے درمیان معاشرہ اور لوگ آجاتے ہیں اور لوگ بھی اپنے، اپنے ماں باپ۔۔!!
اس رات وہ سو نہیں پائی۔ بستر میں دبکی روتی رہی۔ اپنی کم مائیگی پر، اپنے احساس کمتری پر، معراج دین کی بیٹی ہونے پر۔
رضائی اوڑھے وہ بستر میں لیٹی کپکپاتی رہی حالانکہ بستر گرم تھا پر اس کے اندر ٹھنڈک اتر رہی تھی۔ باہر تاریکی بڑھتی گئی اور اندر وحشت۔
پھر کہیں رات بارہ بجے ارسل کا میسج آیا۔
”بابا کل تم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔“
وہ ساکت رہ گئی۔
”کل۔۔؟؟“ وہ اٹھ بیٹھی۔ لیٹ کر میسج ٹائپ نہیں ہو رہا تھا۔
”ہاں کل شام پانچ بجے۔۔“ وہ کافی سنجیدہ تھا۔
”لیکن میرا آفس۔۔۔“ وہ بات اُدھوری چھوڑ گئی۔
”ایک چھٹی کرلو فجر۔ کمپنی رک نہیں جائے گی۔۔۔“
اسے لگا وہ روڈ تھا۔ فجر نے لب بھینچ لیے۔ وہ جانتی تھی وہ لڑ رہا تھا اپنی محبت کے لیے لیکن وہ نہیں چاہتی تھی اس لڑائی میں انکی محبت کم ہو۔
”ٹھیک ہے میں آجاؤں گی۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔ ارسل نے میسج سین کرنے کے بعد کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کتنی دیر فون ہاتھ میں پکڑے بیٹھی رہی لیکن اس کا میسج نہیں آیا۔ وہ شاید سو چکا تھا۔پھر وہ بھی فون تکیے کے نیچے رکھ کر لیٹ گئی۔ اسکا فون سائلنٹ پر ہوتا تھا کیونکہ اماں کو اسکے فون کا بار بار بجنا پسند نہیں تھا۔ وہ تکیے کے نیچے رکھ کر سوتی تھی کہ رات کے کسی پل اگر ارسل میسج کرے تو وہ وائبریشن سے اٹھ ہوجائے۔ ارسل کو انتظار کرانا اسے پسند نہیں تھا۔
کوئی اور دن ہوتا تو اسے ارسل سے اگلے دن ملنے کی بہت خوشی ہوتی کیونکہ وہ کم کم ہی مل پاتے تھے۔ پہلے پہل وہ اس سے ملنے سے ڈرتی تھی اور جب پہلی بار ملی تو اس نے جانا وہ ایک بےضرر سا انسان تھا۔ نہ وہ اسے بلاوجہ چھوتا تھا اور نہ کبھی اس نے کوئی فضول گفتگو کی تھی۔ پھر اس کا ڈر کھل گیا۔ خوف دور ہوگیا اور اب وہ اس کا سب کچھ تھا۔
جانے کیا ہونے والا تھا۔ جانے ارسل کے گھر والے اس سے مل کر کیا رہ ایکٹ کرنے والے تھے۔ جانے وہ انہیں پسند آتی بھی یا نہیں۔۔؟؟ بہت ساری باتیں دماغ میں چل رہی تھی۔ پچھلے پہر اس کی آنکھ لگی تھی اور فجر کے وقت اماں نے دروازا بجا بجا کر اٹھا دیا۔ وہ بھی بنا کچھ بولے اٹھ گئی۔ آج اسے دعا کرنی تھی۔ اپنی محبت کے لیے اور جانے کتنے عرصے بعد اس نے دعا مانگی تھی۔ اس ہے بعد نیند پھر سے کہیں دور جا سوئی۔ وہ اماں نے پاس ہی باورچی خانے میں بیٹھ گئی۔ اماں کو صبح صبح خالی معدہ چائے پینے کی عادت تھی۔
”ارسل کے گھر والے آج مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔“ اس نے ڈرتے ڈرتے اماں کو آگاہ کیا۔ توقع کے مطابق اماں کے چہرے کے ساتھ تاثرات بگڑ گئے۔
”پہلے مجھ سے پوچھ کر جاتی ہے؟؟“
”اماں میں ابا اور تیری مرضی کے بغیر تو یہ شادی نہیں کر سکتی۔۔“ اس نے احتجاجاً بتایا۔ اماں نے چائے چھوٹے کپ میں ڈال دی۔
”دیکھ فجر عزت دار لوگ رشتہ مانگنے گھر آتے ہیں یوں لڑکی کو باہر نہیں بلاتے۔۔۔“
بات تو اماں کی ٹھیک تھی۔ اسکے دل کو کچھ ہوا پر وہ خود پر قابو پاتے فوراً بولی۔
”رشتہ لینے وہ لوگ گھر ہی آئیں گے پر تو انہیں کدھر بٹھائے گی؟؟ یہاں اس گھر میں؟؟ اماں ان کے بیٹھنے کے لیے کرسی تک نہیں ہے۔۔“ وہ خود پر قابو پاتے لڑ رہی تھی ارسل کے لیے اسکی محبت کے لیے۔
”جا تیرے باپ کو چائے دے آ۔۔“ اماں نے اس کی بات نظر انداز کی۔ وہ اب آٹا گوندھنے کے لیے پانی گرم کررہی تھی۔ باورچی خانے میں جلتے کوئلوں کی گرمائش تھی جس سے ہڈیوں کو سکون مل رہا تھا۔
”خالی پیٹ صبح صبح ابا کو چائے پلا دیتی ہے ایسے بیماری ٹھیک ہوگی کیا؟؟“ وہ کپ اٹھاتے بڑبڑائی۔ جبکہ اماں کچھ نہ بولی۔ چائے اٹھا کر وہ اندر آئی تو ابا اپنے بستر پر، آنکھیں پھاڑے، لیٹا تھا۔ آنکھوں میں خوف واضح تھا۔
”جا منار چلی جا۔۔۔“ وہ منار کو جانے کا کہہ رہا تھا جو اب جاتی ہی نہیں تھی۔ اس پر ہنستی رہتی تھی۔
”ابا۔۔۔“ کمرے کی فضا میں عجیب سی مہک تھی۔ فجر نے بے اختیار دوپٹہ ناک پر رکھا۔ ابا کے بستر کے نیچے پیتل کا برتن رکھا تھا جس میں چولہے کی راکھ تھی۔ ابا کو اکثر کھانس کھانا کر قے آجاتی تھی اور اس کے لیے یہ برتن استعمال ہوتا تھا۔ اسی کی ہی بدبو کمرے میں پھیلی تھی۔
”ابا لے چائے پی لے۔۔۔“ اس نے چھوٹے سے پرانے ٹوتے پھوٹے میز پر چائے کا کپ رکھ دیا۔ پہلے ابا مٹی کی پیالی میں چائے پیتا تھا۔ پیالی کو کپ سے فجر نے ہی بدلا تھا۔ جیسے ہی وہ کپ رکھ کر مڑنے لگی ابا نے اس کا بازو پکڑ لیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو مدھم روشنی میں ابا کا چہرہ خوفناک لگا۔ وحشت سے پھٹی آنکھیں دیکھ کر فجر گھبراگئی۔
”ابا کیا ہوگیا ہے تجھے؟؟“ وہ اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی پر ابا کے ڈھانچہ نما بازو میں جانے اتنی طاقت کہاں سے آگئی تھی۔ فجر کو اپنی کلائی جلتی محسوس ہوئی۔
”تو بھی نہیں بچے گی۔ تو بھی مرے گی۔ تجھے بھی منار کی طرح مرنا ہوگا۔۔“
”ابا چھوڑ۔۔“ اس نے زوردار جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا اور پھر کمرے سے نکل گئی۔ دل دھک دھک کر رہا تھا۔ آج کل سب اس کے دشمن بن گئے تھے۔
”ابا کو ہسپتال لے جا اماں پتا نہیں کیا اول فول بولے جارہا ہے۔ پاگل ہوگیا ہے۔۔“ اپنی جلتی کلائی سہلاتے وہ واپس آئی۔
”پیسہ کہاں سے لاؤں؟ پیڑ پر اگتے ہے کیا؟؟“ اماں کا لہجہ تلخ تھا۔ وہ آٹا گوندھ چکی تھی۔
”جو رکھے ہیں انکا اچار ڈالے گی؟؟“
”تیرے بیاہ کے لیے رکھے ہیں۔۔“
”مجھے نہیں چاہیے اور چند ہزار میں تو میرا کونسا جہیز بنا لے گی؟؟ دل کھٹا ہوگیا۔
”جا چلی جا فجر! میرا دماغ نہ خراب کر۔۔“
اس نے ایک نظر اماں کو دیکھا جو اب رات والا سالن گرم کر رہی تھی۔ ان کے لیے یہی سالن من و سلوی سے کم نہیں تھا۔
”میں جارہی ہوں بس بتانے آئی تھی کہ ارسل میرا ہے۔۔۔“
وہ اٹھنے لگی پر اماں کے چہرے پر ابھرتی طنزیہ مسکراہٹ اسے اندر تک سلگا گئی۔
”کسی کو اپنا مان لینے سے وہ اپنا نہیں ہو جاتا فجر۔۔!!“
وہ پتا نہیں اتنی تلخ باتیں کیوں کرتی تھی۔ فجر کا دل ڈوب کر ابھرا۔
”وہ میرا ہے اماں۔۔۔“ اسے اپنی ہی آواز دور کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔
”ہنہہ۔۔۔“ اماں نے آگ پر تیل چھڑک دیا۔ فجر کو اپنی نم آنکھوں میں اماں کا وجود دھندلایا محسوس ہوا۔
”زمانہ بدل گیا ہے اماں۔ آج کل شادیاں ایسے ہی ہوتی ہیں۔۔“ بودی سی دلیل دی۔ جانے خود کو دی تھی یا اماں کو۔
”زمانہ بدلنے سے روایات نہیں بدل جاتیں۔۔۔“ اماں کی بوڑھی ہڈیوں میں جان باقی تھی۔ باہر چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں تیز ہوگئیں۔فجر کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ اماں اب آٹے کا پیڑہ بنانے لگی۔
”مجھے یقین ہے اماں اللّٰہ نے اسے میرے لیے بنایا ہے اسے میرے لیے بھیجا ہے ورنہ وہ مجھے ملتا ہی کیوں؟؟“
”اسکا سوچا ہے کبھی جس کے لیے اللہ نے تجھے بنایا ہے؟؟ اسے کل کو کیا جواب دے گی؟؟ ساری محبت کسی غیر پر لٹادی؟؟“ اماں نے اس بار اس کا دل نکال کر انگیٹھی میں ڈال دیا۔ وہ لہو لہان سینہ لیے کھڑی رہی۔جلن بڑھتی گئی۔ اماں نے اب گرم توے پر روٹی ڈالی۔ اس نے کچھ سوچنا چاہا پر ارسل سے آگے کچھ نظر ہی نہیں آیا۔ آگے بس اندھیرا تھا۔
”ہماری محبت سچی ہے اماں اللہ ہم پر اپنا کرم کرے گا۔۔“
وہ پورے جذب سے بولی۔
اماں نے کہنا چاہا کہ ”ماں باپ کی محبت کے سامنے ساری محبتیں دم توڑ جاتی ہیں۔۔“ پر وہ خاموش رہی۔ فجر کو سمجھانے کا فائدہ نہیں تھا۔ وہ ارسل کی محبت میں پتھر ہوچکی تھی اور پتھروں سے سر پھوڑ کر کیا ملتا ہے؟؟
✿••✿••✿••✿
گھر سے نکلتے وقت اماں نے اسے ٹوکا۔
”یہ تیرا پہلا اور آخری موقع ہے فجر! یاد رکھ اس کے بعد کچھ بھی نہیں۔۔“ اماں نے اسے یاددہانی کرائی۔ اگر اسکی محبت ہار جاتی تو اسے بلقیس کے لڑکے سے۔۔۔۔۔
”کبھی نہیں۔۔۔۔“ وہ تصور بھی نہیں کر سکی۔
اور اب وہ اضطراب کی کیفیت میں بیٹھی ہاتھ مسل رہی تھی۔ پانچ بج چکے تھے پر ارسل اور اس کے گھر والے ابھی تک نہیں آئے تھے۔ آج وہ کل والے حلیے میں نہیں تھی۔
آج چہرہ میک اپ سے عاری تھا۔ بال بندھے تھے۔ ہلکے جامنی رنگ کا خوبصورت سا کھدر کا سوٹ پہنا تھا جس کھلا ٹراؤزر سفید رنگ کا تھا اور سر پر قمیص کے ہم رنگ دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا جبکہ سفید گرم جیکٹ ٹھنڈ سے بچنے کے لیے پہن رکھی تھی۔ پاؤں سفید بند جوتوں میں مقید تھے۔ وہ نہیں چاہتی تھی ارسل کے گھر والوں کے سامنے وہ اوور لگے۔ وہ سمپل اور ڈیسنٹ لگنا چاہتی تھی۔ تیار تو وہ کبھی کبھی ارسل کے لیے ہوتی تھی۔
ریستوران کا دروازہ کھلا اور فجر نے بےتابی سے دیکھا پر آنے والا ارسل نہیں تھا۔ کندھے پر سیاہ بیگ لٹکائے ایک لڑکا اندر داخل ہوا۔ وہ آج پھر کل والے ریستوران میں تھی۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا وہ چاہتی تھی ارسل کے گھر والے جلدی سے آئیں اور اس کے حق میں فیصلہ کردیں تاکہ کانٹوں پر گزرتی یہ رات ختم ہو۔ آج وہ کپل ایریا میں نہیں بیٹھی تھی۔ بڑی سی میز کے گرد پانچ کرسیاں رکھی تھیں اور وہ ان میں سے ایک پر بیٹھی تھی۔ اب اس نے رخ پلٹ کر داخلی دروازے کی جانب کرلیا۔ گلاس وال اور گلاس ڈور سے باہر کا منظر واضح ہوا۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہی تھی جیسے اسکا کوئی بڑا امتحان ہو۔
اچانک ایک لمبی گاڑی باہر آکر رکی۔ باہر کھڑا گارڈ اب گاڑی پارک کروا رہا تھا۔ یہ ارسل کی گاڑی نہیں تھی وہ اسے پہچانتی تھی۔ تبھی دروازہ کھلا اور ارسل باہر نکلا۔ فجر نے بے ساختہ خشک لبوں پر زبان پھیری۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنے لگے۔ وہ فٹافٹ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ارسل سب گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول رہا تھا۔ ایک برقعے والی خاتون باہر نکلی۔ وہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔
ساتھ والے میز پر بیٹھے لڑکے کی نظر اچانک اس پر پڑی۔
“Beauty in Purple..”
وہ ہولے سے بڑبڑایا۔ کل دونوں بھی وہ ایک وقت میں یہاں موجود تھے اور آج پھر۔ لیکن آج وہ اکیلی تھی اور ںےچین تھی۔ وہ کندھے اُچکاتا اپنے فون کی طرف متوجہ ہوگیا۔ آج پھر اس کے ہاتھ میں کیمرہ تھا اور عجیب سی ٹیپ ریکارڈر تھی۔ ہیڈ فون اس کے کانوں پر لگا تھا اور کیپ سر پر تھی۔ شاید یہ اس کا ازلی حلیہ تھا۔ وہ بھی وہاں کسی کا ویٹ کر رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
یہ اتفاق نہیں تو اور کیا تھا کہ وہ لڑکی کل بھی وہاں موجود تھی اور آج بھی۔ کل بھی وہ خوبصورت لگ رہی تھی اور آج بھی۔ وہ انسانوں میں دلچسپی نہیں لیتا تھا پھر بھی ناجانے کیوں یہ چہرہ اسے یاد رہ گیا۔ اس نے نوٹس کیا پھر سر جھٹک دیا۔
اور تبھی دروازہ کھلا۔ ارسل اپنے پیرنٹس کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ گلاس ڈور جیسے ہی کھلا پورے رستوران میں ونڈ چارم کی پرسوز سی آواز گونج گئی۔ یہ ونڈ چارم داخلی دوازے پر لٹکا تھا اور دروازہ کھلتے بند ہوتے ضرور بجتا تھا۔ رستوران میں داخل ہوتے ہی سیدھی لمبی روش تھی کو کاؤنٹر تک جارہی تھی جبکہ دائیں بائیں سٹنگ ایریا تھا۔ دائیں جانب نارمل ایریا جبکہ بائیں جانب کپل ایریا تھا۔ ہلکے گلابی اور سفید رنگ کی دیواروں والا یہ رستوران شہر کا مہنگا ترین رستوران تھا۔ اور فجر آج دائیں جانب بیٹھی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ آج کا دن جیسے فیصلہ کا دن تھا۔
تھری پیس سوٹ پہنے برہان گردیزی کے چہرے پر نرماہٹ بالکل بھی نہیں تھی جبکہ مسز برہان مکمل پردے میں تھی انکے تاثرات کا کچھ پتا نہیں تھا۔ ارسل فجر کو دیکھ کر اس کی جانب بڑھا۔
”السلام علیکم!“ وہ بمشکل بول پائی۔ حلق میں کانٹے آگ آئے۔
”وعلیکم السلام۔۔“ مسز برہان نے جواب دیا۔ فجر نے گھبرا کر ارسل کی جاںب دیکھا جس نے اُسے ریلیکس رہنے کا اشارہ کیا پر وہ خود کافی پریشان تھا۔ آنکھوں سے رتجگا واضح تھا۔ برہان گردیزی نے اس کے سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ چاروں جانب عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے شاید انہیں خطرہ تھا کہ کوئی انہیں وہاں دیکھ نہ لے۔
مستطیل میز کے دونوں جانب رکھی آرام دہ صوفہ نما کرسیوں میں سے چار پر وہ چاروں ٹک گئے تھے۔ فجر کو اپنے چہرے سے تپش نکلتی محسوس ہورہی تھی۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ وہ بار بار برہان گردیزی کو دیکھ رہی تھی جو وہاں غیر آرام دہ محسوس کر رہے تھے۔ وہ چاہتے تو اسے گھر بلا سکتے تھے یا پھر اپنے آفس لیکن باہر کیوں؟؟
فجر سوچ ہی نہ پائی۔ وہ سوچ ہی نہ پائی کہ اس کی اہمیت اتنی بھی نہیں کہ اسے گھر بلایا جاتا۔۔۔۔ لیکن محبت نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ برہان گردیزی اپنے بیٹے ارسل گردیزی کے لیے خود آیا تھا۔ وہ فجر معراج سے ملنے آیا تھا فجر کے لیے یہ بہت بڑی بات تھی۔
سیلنگ سے لٹکتے برقی قمقموں میں تذبذ کا شکار فجر دونوں ہاتھ گود میں گرائے بیٹھی تھی۔ برہان گردیزی سرد وسپاٹ تاثرات لیے اسے گھور رہے تھے جبکہ مسز برہان کو وہ لڑکی پہلی ہی نظر میں اچھی لگی تھی۔
رستوران میں کافی کی تیز اور کیفین کی کڑوی سی، فوراً اثر کرنے والی، خوشبو پھیلی تھی۔ رستوران ابھی خالی تھا چند ایک لوگ بیٹھے اور زیادہ تر کافی ہی پی رہے تھے۔ گلاس ڈور پھر سے کھلا، ونڈ چارم کی سماعت کو سکون پہنچاتی آواز پھر سے گونجی اور ایک لڑکا اندر داخل ہوا۔ وہ تیز تیز چلتا ہوا آیا اور پھر ساتھ والے ٹیبل پر بیٹھے اس ہیڈ فون والے لڑکے کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔
ساتھ والے میز پر بیٹھے ان چاروں کے درمیان پھیلی خاموشی بھیانک ہونے لگی تھی تو ارسل فوراً بولا۔
”بابا یہ فجر ہے۔۔“ وہ فجر کی طرف دیکھتے بولا۔
”اور فجر یہ میرے بابا اور اماں ہیں۔۔“ فجر مسکرائی۔ اس نے باری برہان اور مسز برہان کی طرف دیکھا۔ جانے کیوں بار بار ہونٹ خشک ہورہے تھے۔ ویٹر آڈر لینے آیا تو ارسل نے کافی کا آڈر دے دیا۔
برہان گردیزی غور سے فجر کو دیکھ رہے تھے۔ وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ بیضوی چہرہ، روشن آنکھیں، لمبی گھنی پلکیں جو بار بار لرز رہی تھیں اور اس کی ٹھوڑی پر چمکتا وہ بھورا تل۔۔۔۔ ارسل تو کیا کوئی بھی لڑکا اس پر دل ہار جاتا۔ انہوں نے بےچینی سے پہلو بدلا۔ جانے کیوں وہ چہرہ انہیں جانا پہچانا لگا۔
”کیا کرتی ہیں آپ مس فجر؟؟“ بالآخر وہ بول پڑے۔ بیٹے کی خوشی کے لیے یہ سب ضروری تھا۔
”فیشن ڈیزائنگ کی اسٹوڈنٹ ہوں لاسٹ سمیسٹر چل رہا ہے۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
”ارسل کے ساتھ کیوں ہو؟؟“ اگلا سوال ابھرا۔ عجیب غریب سا۔ فجر نے چونک کر نظریں اٹھائیں۔ اس کی نظریں ایک پل کو برہان گردیزی سے ٹکرائیں اور اگلے ہی پل اس نے ارسل کو دیکھا وہ خاموش بیٹھا تھا۔ اُسے خاموش بیٹھنا تھا۔ اسے یہ حکم تھا۔
”ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ شادی کرنا چاہتے ہیں۔“ اسے اپنی آواز دور کھائی سے آتی سنائی دی۔
”غیر مرد سے محبت کی اجازت کس نے دی۔۔؟؟“
فجر کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ اس نے تڑپ کر ارسل کو دیکھا اور ارسل نے اپنے باپ کو۔ کوئی پوچھتا برہان گردیزی سے انہیں ایسے سوال کی اجازت کس نے دی تھی؟؟
”بابا پلیز۔۔۔“ وہ احتجاجاً بولا۔
”ہمارے خاندان میں سات پشتوں سے عورتیں شرعی پردہ کرتی آرہی ہیں۔ میں تمہیں اپنے خاندان کی بہو کیوں بناؤں۔۔؟؟“ بریان گردیزی کے چہرے کے نقوش بھنچے ہوئے تھے۔ بھنویں سکڑی ہوئی تھیں اور آنکھوں میں کھلا استہزاہ تھا۔ فجر کا چہرہ خفت سے سرخ پڑا۔ وہ تو جانے کتنے جواب یاد کرکے آئی تھی لیکن یہاں تو سوال ہی بدل گئے تھے۔ اس نے ایک نظر برہا گردیزی کو دیکھا یہ نظر بڑی گہری تھی۔ خوبصورت نین نقش والا وہ شخص یقیناً اپنی جوانی میں کئی دلوں کی دھڑکن رہا ہوگا۔ سرمئی اور سیاہ بال ایک طریقے سے سیٹ تھے۔ قیمتی گھڑی کلائی میں بندھی تھی۔ تھری پیس سوٹ کے ساتھ چمچماتے جوتے پہنے وہ شخص اپنی بیٹے کی پسند کی لڑکی سے ملنے نہیں آیا تھا بلکہ وہ اسے ذلیل کرنے آیا تھا۔
”فجر کو میں نے چُنا ہے بابا۔۔“ لہجے کو حد درجہ نارمل رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ والے میز پر بیٹھے لڑکوں میں سے نئے آنے والے نے کسی بات پر قہقہہ لگایا جبکہ دوسرا، وہ فارنر، دھیمے سے مسکرایا تھا۔
ارسل کی بات سن کر برہان گردیزی نے گہرہ سانس فضا میں خارج کیا۔ ویٹر آڈر لے آیا تھا۔ ان کے سامنے اب سفید چمچماتے چوکور کپوں میں گہرے بھورے رنگ کی کافی رکھی جارہی تھی۔ چند پل کی خاموشی چھائی اور پھر ویٹر چلا گیا۔
”جوان بیٹا ہے پلیز تھوڑا حوصلے سے کام لیں۔۔“ مسز برہان نے اپنے پہلو میں بیٹھے اپنے شوہر سے عرض کی۔
”تمہارے ماں باپ کیا کرتے ہیں بیٹا۔۔۔“ اس بار مسز برہان بولیں۔ فجر کو تھورا حوصلہ ہوا ورنہ وہ رو دینے کو تھی۔
”اماں ہاؤس وائف ہیں اور ابا بیمار ہیں وہ کچھ نہیں کرتے گھر ہی ہوتے ہیں۔۔“ وہ شستہ لہجے میں بولی اور اب کافی کے کپ کے کناروں پر انگلی پھیر رہی تھی۔ برقی قمقموں میں اس کے ہاتھ اور اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔
”تو گھر کیسے چلتا ہے۔۔۔؟؟“
کیا کسی نے اُن کو بتایا نہیں تھا کہ وہ لڑکی دیکھنے آئے تھے اپنے بیٹے کے لیے۔ اپنی کمپنی کے لیے کسی ملازم کو ہائر کرنے نہیں۔ وہ کوئی انٹرویو نہیں تھا پر انہیں کون سمجھاتا۔ مسز برہان نیک دل خاتون تھیں۔ لیکن شوہر کے آگے وہ بھی مجبور تھیں یا شاید یہ اُنکا پہلا موقع تھا انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ بیٹے کی پسند سے کیسے ملا جاتا ہے اسے کیا رتبہ دیا جاتا ہے۔
”دکانوں کا کرایہ آتا ہے اور میں جاب کرتی ہوں۔“ اگر وہ ارسل کے ماں باپ نہ ہوتے تو فجر معراج کافی اُن کے خوبصورت چہروں پر انڈیل کر جاچکی ہوتی۔ وہ اُن کے خوبصورت چہروں کو بگاڑ چکی ہوتی۔ وہ ان کی باہر کھڑی مہنگی گاڑی کو آگ لگا چکی ہوتی لیکن کمبخت وہ پھنس چکی تھی کیونکہ وہ ارسل کے ماں باپ تھے۔
”کیا جاب کرتی ہو؟؟“ اگلا سوال ابھرا اور ارسل نے جبڑا بھینچ کر خود پر قابو پایا۔
”اسٹوڈنٹ ہوں اور پاکستان میں اسٹوڈنٹس کو کال سینٹرز میں ہی جاب کرنی پڑتی ہے۔۔“ لہجہ تیکھا ہوگیا ناچاہتے ہوئے بھی۔ برہان گردیزی نے بھنویں اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھی فجر معراج کو دیکھا۔ ارسل بےچینی سے پہلو بدل رہا تھا۔
”کتنے بہن بھائی ہیں؟؟“ وہ پتا نہیں کیا جاننے چاہ رہے تھے۔ سفید کپ میں رکھی گرم کافی اب ٹھنـڈی ہورہی تھی۔
”اکلوتی ہوں۔ ایک بڑی بہن تھی منار معراج تئیس سال پہلے انتقال ہوگیا۔“ اس بار چونکنے کی باری برہان گردیزی کی تھی۔ پیشانی پر لکیریں ابھریں۔ انہوں نے بےساختہ اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی۔
”فجر معراج۔۔۔۔منار معراج۔۔۔معراج الدین کی بیٹیاں۔۔“
کچھ تھا جو ماضی کے گزرے پنّوں سے جڑگیا تھا۔ وہ اب سمجھے تھے سامنے بیٹھی لڑکی کا چہرہ اتنا جانا پہچانا کیوں لگ رہا تھا۔ انہوں نے بےساختہ ارسل کو دیکھا جو خود پر قابو رکھے بیٹھا تھا جو چاہتا تھا اسکا باپ فیصلہ اس کے حق میں دے دے۔ اسی لیے وہ اُنکی باتیں برداشت کر رہا تھا۔ منار معراج کے نام پر چونکی تو مسز برہان بھی تھیں۔ اُنہوں نے بھی پہلو بدلا تھا لیکن کہا کچھ نہیں۔
انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا ماضی کسی روز یوں سامنے آجائے گا۔۔۔۔ آکر کھڑا ہوجائے گا۔
رستوران کا گلاس ڈور بار بار کھل رہا تھا۔ ونڈ چارم بار بار بج رہا تھا۔ لوگ آجارہے تھے۔ فجر سنجیدہ سی بیٹھی تھی۔
”تمہاری بہن کی موت کیسے ہوئی؟؟“
اس سوال کی اس نے خواب میں بھی توقع نہیں کی تھی۔ وہ حقیقتاً پریشان ہوگئی تھی۔
”منار کا یہاں کیا ذکر؟؟“
”وہ تو مرگئی تھی۔۔۔“
”وہ لوگ منار کو کیسے جانتے تھے؟؟“
”کیا کوئی راز ایسا تھا جس سے وہ ناواقف تھی؟؟“
ہزاروں سوال دماغ میں کھلبلا اٹھے۔
”میری مری ہوئی بہن کا یہاں کیا ذکر۔۔۔؟؟“ وہ واقعی اُلجھ گئی تھی۔ کیا والدین کے لیے اپنے بیٹے کی پسند کی لڑکی کو اپنانا اتنا مشکل کام ہوتا ہے؟؟ کیا وہ اُسے ایک موقع بھی نہیں دے سکتے؟؟ ہزاروں خدشے سانپ کی طرح پھن پھیلائے اس کے ارد گرد منڈلانے لگے۔ وہ اُسے ڈسنے کو تیار تھے اور فجر معراج کسی صورت یہ زہر برداشت نہیں کر سکتی تھی۔
اُسکے الٹے سوال پر برہان گردیزی نے ایک گہرا سانس لیا اور اپنے اندر اٹھتے ابال کو دبایا۔ اب اُنکے چہرے پر گہری ناپسندیدگی تھی جسے اُنہوں نے چھپانا ضروری نہیں سمجھا۔
”مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے ارسل میرے ساتھ آؤ۔۔“ وہ ارسل کو حکم دیتے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ارسل نے بےچینی سے فجر کو دیکھا جو رودینے کو تھی۔
”بابا۔۔۔“ برہان گردیزی دروازے کی جانب قدم بڑھاچکے تھے جب ارسل نے پکارہ۔
”رائٹ ناؤ ارسل۔۔۔“ وہ اونچی آواز میں بولے۔ پیچھے مڑ کر دیکھنا گوارہ نہیں کیا۔ انکی آواز پر ساتھ والے میز پر بیٹھے لڑکے نے چونک کر دیکھا۔ ارسل اب فجر کو دلاسہ دیتے ان کے پیچھے لپکا۔
فجر اور مسز برہان اکیلی بیٹھی رہ گئی تھیں۔ خاموشی چھاگئی۔۔۔ وقفہ لمبا ہوا۔ فجر سرجھکائے بیٹھی تھی۔ اسکی کافی کب کی ٹھنڈی پڑ چکی تھی۔ وہ کرسی سے پشت ٹکائے گود میں رکھے اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی۔ یہ سب اتنا آسان نہیں تھا اُسے آج سمجھ آیا تھا۔ کسی بھی لڑکے کے لیے اپنے ماں باپ کو منانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ کسی بھی لڑکی کے لیے اپنی محبت کی خاطر لڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
”کیا یہ اتنا مشکل ہے؟؟“ اس نے نظریں اٹھا کر مسزبرہان کو دیکھا۔ آنکھوں میں نمی کی تہہ تھی جسے وہ اندر چھپائے بیٹھی تھی۔ مسز برہان نے ناسمجھی کے عالم میں اُسے دیکھا۔
”کیا اتنا مشکل ہے فجر معراج کو قبول کرنا۔۔۔؟؟“ وہ ہولے سے بڑبڑائی۔ مسز برہان کے دل کو کچھ ہوا۔ انہیں اپنے بیٹے کی پسند سے مسئلہ نہیں تھا۔ مسئلہ برہان گردیزی کو تھا۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے سات پردوں میں چھپی لڑکی لانا چاہتے تھے اور اب انہیں انکار کا ایک اور جواز مل گیا تھا۔
منار معراج۔۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
گاڑی کی فضا میں اس وقت حبس تھی۔ برہان گردیزی اپنا کوٹ اتار چکے تھے اور پیشانی پر انگوٹھا جمائے وہ اپنا غصہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ ارسل بےتابی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا اُسکے باپ کو کیا ہوا تھا پر وہ اُنہیں ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”بابا۔۔۔۔“ بالآخر اس نے پکارہ۔
”تم جانتے ہو وہ لڑکی کون ہے؟ تم جانتے ہو اُس کا خاندان کیسا ہے؟ کیا تم اتنے اندھے ہوگئے محبت میں یہ تک نہ جان پائے اُس لڑکی کے خاندان نے ہمیں برباد کرنے کی قسم اٹھارکھی ہے۔۔۔ “ وہ بولے تو بولتے چلے گئے۔ چہرہ لال بھبھوکا ہوچکا تھا۔ باہر دھند اتر آئی تھی جبکہ ارسل ان کی بات سن کر ششدر رہ گیا۔ اسکے خوبصورت چہرے پر پریشانی تھی آنکھوں میں بےیقینی تھی۔
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟؟“ وہ بمشکل بول پایا۔ وہ کسی صورت فجر کو نہیں گنوانا چاہتا تھا۔
”تم جانتے ہو تمہارا اکلوتا چچا نفسیاتی مریض کیوں ہے؟؟ جانتے ہو وہ وہیل چیئر پر کیوں ہے؟؟ جانتے ہو اسکی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے؟؟“
کوئی گہرا راز تھا جو کھلنے والا تھا۔ ارسل کا دل ڈوب کر ابھرا۔ اس نے پل کے ہزارویں حصے میں خواہش کی تھی کہ فجر کا اِس سے کوئی تعلق نہ ہو۔۔۔۔پر کبھی کبھی زندگی ہمیں منہ کے بل گرادیتی ہے جب ہمیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے یہ ہمیں دھوکا دیتی ہے۔ وہ بس اپنے باپ کو دیکھے گیا کچھ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔
”اس لڑکی کی بہن اور اس کا خاندان، انہوں نے مل کر فرقان (چچا) کو اس حال تک پہنچایا ہے۔۔۔“
اور ارسل کا دل ڈوب گیا۔ وہ جانتا تھا اب کبھی ابھر نہیں پائے گا۔
”یہ لڑکی صرف تمہیں استعمال کر رہی ہے۔۔۔“
ارسل کے ہونٹ بھنچ گئے۔
”میں کسی بےپردہ لڑکی کو پہلے ہی اپنے خاندان کا حصہ نہیں بنانا چاہتا تھا پر اب یہ سب جان کر کہ وہ کس خاندان سے ہے اس کا ماضی کیا ہے۔۔ اب تو بالکل نہیں۔۔“
ارسل نے ضبط سے آنکھیں میچ لیں۔
”وہ لڑکی میری زندگی ہے بابا۔۔۔“
آنکھوں کو جھپک کر نمی کو اندر کھینچنا چاہا۔
”اور میں۔۔۔؟؟ میں کیا ہوں تمہارے لیے؟؟ تمہارا چچا کیا ہے تمہارے لیے۔۔؟؟“ وہ سخت لہجے میں بولے۔ وہ خاندان کو محبت کے مقابل لے آئے تھے۔
”میں اُس کے ساتھ جینا چاہتا ہوں۔۔“
”یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ تمہارے چچا کو موت کے منہ میں بھیجنے کی ایک وجہ ہے۔۔۔؟؟“ وہ کتنے سخت دل تھے۔ ارسل کے لب پھڑپھڑا کر رہ گئے۔ وہ اب انہیں نہیں دیکھ رہا تھا وہ رستوران کے اس گلاس ڈور کو گھور رہا تھا جس کے پار وہ لڑکی بیٹھی تھی جس کے ساتھ اس نے ہزاروں خواب دیکھے تھے۔ وہ اس کے ساتھ جینا چاہتا تھا۔
”اماں آج بھی روتی ہیں فرقان کی یہ حالت دیکھ کر، وہ آج بھی اس لڑکی کو اور اس کے خاندان کو بددعائیں دیتی ہیں اگر انہیں پتا چلا کہ تم اُسی لڑکی کی بہن کو اِس گھر کی بہو بنانا چاہتے ہو وہ مرجائیں گی۔۔“ برہان گردیزی کاری وار کر رہے تھے۔ جانتے تھے بیٹے کو کیسے توڑنا تھا۔
”میں اُس کے لیے سب کچھ ہوں۔ میں نے اُسے چھوڑ دیا تو وہ ٹوٹ جائے گی۔۔“ اس نے ایک اور دلیل دی۔
”چاہے خاندان ٹوٹ جائے؟؟ چاہے باپ ٹوٹ جائے؟؟ میں نے تمہیں یہ تو نہیں سکھایا تھا ارسل۔۔۔“ انکے لہجے میں گہرا افسوس تھا جبکہ ارسل کا سانس سینے میں ہی اٹک چکا تھا۔
”میں اُسے چاہتا ہوں بابا۔۔۔“ اس نے جیسے منت کی۔
”اس جیسی ہزاروں آئیں جائیں گی ارسل۔۔۔۔“ خالص مردانہ لہجے میں کہا گیا۔ ارسل نے ضبط سے آنکھیں میچ لیں۔
”میں اُسے نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔“
برہان گردیزی کا خون کھول اٹھا۔
”ٹھیک ہے ہمیں چھوڑ دو۔ چلے جاؤ اور کبھی پلٹ کر مت دیکھنا۔۔“ یہ آخری فیصلہ تھا۔
”کیا آپ ایک بار۔۔۔“ اس نے کچھ کہنا چاہا۔
”میرے جیتے جی وہ لڑکی ہمارے گھر کی بہو نہیں بن سکتی ارسل! میرے مرنے کا انتظار کرو پھر اپنی محبت نبھا لینا۔۔۔“ تابوت میں کیل ٹھونک دیا گیا۔ اور ارسل کے کندھے ڈھلک گئے۔ کچھ دیر گہری خاموشی چھائی رہی پھر وہ خاموشی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
آگے کیا کرنا تھا برہان گردیزی کو اسے سمجھانے کی ضرورت نہیں تھی وہ خود سمجدار تھا۔
رستوران کے دروازے کی جانب بڑھتے اُسکے قدم من من کے ہوگئے۔ کندھوں پر ڈھیروں بوجھ تھا اور دل تو حسرتوں اور خواہشوں کے بوجھ میں مارا گیا تھا۔
کاش دنیا کے سبھی ماں باپ اپنے جوان بیٹے کا وہ دکھ سمجھ پائیں جب اُسے ماں باپ اور اپنی محبت میں سے کسی ایک کو چننے کا حکم دیا جاتا ہے۔ کاش وہ سمجھ پائیں کہ وہ جوان لڑکے، وہ تواناہ مرد اس وقت بھربھری ریت کی مانند ڈھے جاتے ہیں۔ اُنکے دل مرجاتے ہیں اور پھر کبھی وہ پورے دل سے مسکرا نہیں پاتے۔ وہ وہ نہیں رہتے جو ہوتے ہیں وہ جیتے جی مرجاتے ہیں۔ کاش ماں باپ یہ سمجھ پائیں۔ آہ کاش۔۔۔۔!!
گلاس ڈور کھول کر ارسل اندر داخل ہوا اور شکستہ قدموں سے فجر کی جانب بڑھا۔۔۔وہ اُسکی جانب جارہا تو رہا تھا پھر حقیقت میں اُس کی جانب اٹھنے والا ہر قدم اُس سے فجر کو دور لے جارہا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی فجر کی آنکھوں کے جُگنوں جل اٹھے۔ یوں جیسے تپتے صحرا میں چھاؤں مل جائے۔
پر فجر اُس کے ڈھلکے کندھے نہیں دیکھ پائی تھی اُس کے لیے اتنا کافی تھا وہ آرہا تھا۔
ساتھ والے ٹیبل کے قریب سے گزرتے اُس کی سماعت سے چند الفاظ ٹکرائے۔
”ولیم تم بہت سارے ملک گھوم چکے ہو بہت خوبصورتی دیکھی ہے تم نے۔ کہیں نظریں ٹھہریں ہیں؟؟ سب سے زیادہ خوبصورت کیا دیکھا تم نے؟؟“ وہ پاکستانی لڑکا اپنے ساتھ بیٹھے ، سیاہ کیپ اوڑھے فارنر سے پوچھ رہا تھا جس کی نظر بےساختہ اٹھی۔ بیوٹی ان پرپل اس کے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔۔!!
اب ارسل فجر تک پہنچ چکا تھا۔ فارنر لڑکے نے نگاہیں پھیر لیں۔
”بابا آپکا گاڑی میں ویٹ کر رہے ہیں۔۔“ اس نے مسز برہان کو ہولے سے کہا۔ ارسل کی آنکھوں کی بجھی جوت دیکھ کر وہ جان چکی تھیں فیصلہ کیا ہوا تھا۔ انہیں اپنے چاند سے بیٹے کے لیے برا لگا پر انہیں اپنے شوہر کے احکامات پر چلنا تھا اس لیے وہ فجر کا گال تھپتھپتا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”خدا تمہیں بہترین سے نوازے، تمہیں خوش رکھے آمین۔۔!!“ وہ اسے دُعا دیتی پلٹ گئیں جبکہ فجر نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔ ایسی دعا کبھی اُسکی ماں نے اُسے نہیں دی تھی۔ اُسے تو ہمیشہ بددعائیں ملی تھیں۔
ارسل اب اس کے ساتھ نہیں بیٹھا تھا فاصلہ رکھ کر بیٹھ چکا تھا اس کا چہرہ جھکا ہوا تھا۔ آنکھیں اٹھنے سے انکاری تھیں۔
”ارسل کیا کہا ہے انکل نے؟؟“ وہ دھڑکتے دل پر قابو پاتے بولی۔ وہ خاموش رہا۔ کچھ بولنے کی ہمت کہاں تھی۔
”ارسل۔۔۔“ اسکی خاموشی بری لگی تو فجر نے پھر سے پکارہ اور اپنا سرد ہاتھ بڑھا کر اسکا گرم ہاتھ تھامنا چاہا لیکن ارسل نے اپنا ہاتھ جھٹکے سے پیچھے کرلیا۔
اسکی یہ حرکت ایسی تھی کہ فجر کا دل ڈوب گیا۔ چہرے کا رنگ خفت سے پھیکا پڑگیا۔
”ارسل۔۔۔“ بےیقینی اور صدمے سے اسے پکارہ گیا۔
”ایم سوری فجر۔۔۔“ وہ بولا بھی تو کیا۔ فجر کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔ انہونی کا احساس جو روح سلب کر لیتا ہے۔
”میں یہ نہیں کر سکتا میں اُنہیں نہیں چھوڑ سکتا۔۔“
روح سلب کر لی گئی۔ فجر کا چہرہ سفید پڑگیا کفن کی مانند۔
”وہ کہتے ہیں انہیں ایک شرعی پردہ کرنے والی بہو چاہیے جبکہ تم فیشن ڈیزائنر بننا چاہتی ہو۔“
کیا یہ جواز تھا؟؟ وہ نظریں چرائے ہوئے تھا۔
”وہ تجھے آسمان سے زمین پر پٹخ دے گا۔۔۔“ اماں کے الفاظ گونج گئے۔
اس نے آسمان سے زمین پر پٹخ دیا تھا۔ اور اتنی اونچائی سے گرنے کی تکلیف کوئی فجر سے پوچھتا۔ وہ بےیقینی سے ارسل کو دیکھ رہی تھی جو کسی مجرم کی طرح چہرہ جھکایا بیٹھا تھا۔ وہ جانتی تھی ارسل اپنی بات کا پکا تھا۔ اس نے کہا تھا وہ اپنے ماں باپ کو اس سے ملوائے گا وہ لے آیا تھا اب وہ کہہ رہا تھا وہ اسے چھوڑ دے گا تو وہ چھوڑ دیتا۔ وہ پلٹ کر نہ دیکھتا۔
”وہ میرے ماں باپ ہیں فجر“
”ماں باپ کے سامنے ساری محبتیں دم توڑ جاتی ہیں۔۔۔“
اماں نے ٹھیک ہی کہا تھا۔
”میں اُنہیں نہیں چھوڑ سکتا میں اپنے بابا کے خلاف نہیں جا سکتا۔۔۔“
”وہ تجھے کبھی نہیں اپنائے گا۔۔۔“
اماں کی کہی ایک ایک بات سچ ہورہی تھی۔
”ایم سوری۔۔۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اسی پل فجر کسی برے خواب سے جاگی۔
”نہیں ارسل۔۔۔“ اُس نے تڑپ کر ارسل کا ہاتھ پکڑ لیا گرفت مضبوط تھی۔ وہ ٹھہر گیا۔
ساتھ والے ٹیبل پر بیٹھے لڑکے ٹھٹک گئے۔ وہ فارنر الجھی نظروں سے اُنہیں دیکھنے لگا۔ ابھی کل ہی لڑکا اس لڑکی کو رنگ دے کر پرپوز کر رہا تھا اور آج۔۔۔۔۔۔ وہ ہاتھ چھڑائے جارہا تھا۔ کیوں؟؟؟
اس کے ساتھ بیٹھے دوسرے لڑکے نے بڑے نامحسوس سے انداز میں کیمرے کا رخ ارسل اور فجر کی جانب کرکے ویڈیو ریکارڈنگ کا بٹن دبا دیا۔
”ارسل پلیز۔ آپ مجھے نہیں چھوڑ سکتے۔ آپ ایسے نہیں جا سکتے۔۔“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کا ہاتھ کسی متاع جاں کی طرح پکڑا ہوا تھا جیسے وہ چھوٹ گیا تو سب ختم۔
ارسل نے اپنا بازو چھڑانا چاہا۔ وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا جانتا تھا اگر دیکھے گا تو پگھل جائے گا۔ وہ رخ موڑے کھڑا تھا۔
”ارسل مجھے آپ کے بنا جینا نہیں آتا۔ آپ مجھے لے جائیں میں انکل کو منا لوں گی میں وہ سب کروں گی جو وہ چاہتے ہیں میں اُنکی ہر بات مانوں گی مم۔۔میں۔۔۔“ وہ بولتے بولتے سسکیوں سے رودی۔
ساتھ والے ٹیبل پر بیٹھا وہ فارنر لڑکا بےچین ہوا۔ اس کے جبڑے بھنچ سے گئے۔ اپنی کرسی پر بلاوجہ ہی پہلو بدلنے لگا جبکہ دوسرا لڑکا بڑے مزے سے یہ تماشہ دیکھ رہا تھا بلکہ سب دیکھ رہے تھے۔
”فجر پاگل مت بنو لوگ دیکھ رہے ہیں۔۔“ اسکا لہجہ سخت تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کوئی انکی ویڈیو بنائے اور گردیزی خاندان پر کوئی بات آئے۔
”آپ مجھے دیکھ لیں پلیز۔ ایک بار دیکھ لیں۔ میں آپکی فجر ہوں آپ نے کہا تھا آپ میرے ہیں۔ آپ نے کہا تھا ہم ساتھ رہیں گے۔ مجھے چھوڑیں مت ارسل۔۔۔“
لڑکوں کو جوتے کی نوک پر رکھنے والی فجر معراج کی انا اُسکا غرور سب دور جا سوئے۔ اُس سے بچھڑنے کا خیال روح فرساں تھا۔ وہ اُسے چھوڑ رہا تھا یہ ناقابل یقین تھا۔ یہ ناقابل بیان تھا۔
”فجر چھوڑو مجھے۔“ ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑایا۔ وہ اُس کی پہنچ سے دور جانا چاہتا تھا اِس سے پہلے کہ وہ لڑکی اُسے اپنے فیصلے ڈگمگانے سے مجبور کردیتی پر اگلے پل جو ہوا وہ ناقابل یقین تھا۔ وہ اُسکے قدموں میں بیٹھتی اس کا پاؤں پکڑ چکی تھی۔
لوگوں نے حیرت سے منہ پر ہاتھ رکھے۔ ”ہاہ ہائے“ کی آوازیں گونج گئیں۔
”کتنی بےشرم لڑکی ہے۔۔۔“ کسی خاتون نے تجزیہ کیا۔
”اپنی سیلف ریسپیکٹ کا ذرا سا خیال نہیں۔۔“ کسی نازک حسینہ نے نخوت سے بال لہرائے۔
”کوئی مجھے یوں ٹھکرائے میں تو اسے مڑ کر نہ دیکھوں۔۔“ تبصرہ کیا گیا۔
”ارسل مجھے چھوڑ کر مت جائیں۔۔۔“ کیسی آہ بکا تھی۔ ارسل کا برہان کا دل ساکت ہوا۔ یہ سب کرنے کا فجر معراج نے بھی کبھی تصور نہیں کیا ہوگا۔ اس کا دوپٹہ سر سے پھسل گیا۔
اُس کی کل کائنات ارسل تھا۔ وہ اُس کے لیے پاگل تھی۔ اُسے لگتا تھا ابا مرجائے گا تو وہ جی لے گی۔ اماں مرگئی تو بھی وہ جی لے گی پر ارسل بچھڑ گیا تو وہ مرجائے گی۔۔۔۔۔!!
اور اس پل فجر معراج کو اپنی موت چاروں طرف نظر آرہی تھی پر وہ مرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ جینا چاہتی تھی۔
”مجھے بھول جاؤ۔۔۔۔“ گلے میں اٹکے آنسوؤں کے گولے پر قابو پاتا وہ پوری قوت سے اپنا پاؤں چھڑائے تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔ ایک آنسوں آنکھ سے پھسل کر گال پر بہتا چلا گیا تھا۔ گلاس ڈور کھلا اور بند ہوگیا۔ ونڈ چارم کی آواز پھر سے گونج گئی۔ رستوران میں موت جیسی خاموشی تھی۔ لوگ دم سادھے بیٹھے تھے۔
پیچھے وہ بیٹھی رہ گئی اکیلی۔ خالی ہاتھ خالی دامن!
وہ گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی۔ اس کا وجود ہچکیوں کی زد میں تھا۔ اماں کی بددعائیں قبول ہوچکی تھیں۔
ارسل برہان، فجر معراج کو چھوڑ کر جاچکا تھا۔ اُس نے اپنے ماں باپ کو چن لیا تھا۔ ایک بار پھر ایک محبت ماں باپ کے ہاتھوں دم توڑ گئی تھی۔ وہ رو رہی تھی ہچکیوں سے۔۔۔۔۔ اور ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھا وہ فارنر لڑکا ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”ولیم میں اُسکے بنا مرجاؤں گی۔ مجھے اُسکے بنا جینا نہیں آتا۔۔۔“ اس کی سماعت سے کچھ جملے ٹکرانے لگے۔ کوئی دور اسے پکار رہا تھا کوئی اپنی تکلیف بیان کررہا تھا۔
وہ اب اپنا کیمرہ بیگ میں ڈال رہا تھا وہ اپنی باقی چیزیں سمیٹ رہا تھا۔
”واٹ ہیپنڈ۔۔؟؟“ اسے یوں اٹھتے دیکھ کر دوسرا لڑکا حیران ہوا۔ پر وہ کچھ نہ بولا۔ سپاٹ چہرہ لیے وہ اب اپنا بیگ کندھے پر ڈال رہا تھا۔
”ولیم پلیز ہیلپ می۔۔۔“ نسوانی آواز تیز ہوگئی۔ کوئی اسکے قریب آچکا تھا۔ کوئی اس کے داہنے جانب کھڑا تھا ایک ہیولا، پر وہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ سسکیوں کی آوازیں واضح ہوتی گئیں۔وہ اسے التجائی نظروں سے دیکھ رہی تھی وہ اس کی مدد چاہتی تھی۔ پھر وہ جھٹکے سے مڑا اور تیز تیز قدم اٹھاتا گلاس ڈور کھول کر باہر نکل گیا۔ ہیولا ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ ونڈ چارم کی آواز پھر سے گونجی اور ساکت ہوگئی۔
✿••✿••✿••✿
خوشیوں کے دن ہمیشہ چھوٹے ہوتے ہیں جبکہ غم کی شام لمبی ہوجاتی ہے پر فجر کی زندگی میں تو غم کی رات آئی تھی۔ ایسی لمبی رات جسکی کوئی صبح نہیں تھی۔ پرپل ڈریس میں سفید جیکٹ پہنے فجر کے چہرے کا رنگ بالکل جیکٹ جیسا سفید ہوچکا تھا۔ جانے وہ کتنی دیر رستوران میں بیٹھی رہی کسی میں ہمت نہیں تھی کوئی اسے اٹھاتا کوئی اسے بلاتا۔ پھر وہ کسی احساس کے تحت اٹھ کر باہر بھاگتے ہوئے باہر نکل آئی۔ اب وہ ارسل ڈھونڈ رہی تھی۔ آتی جاتی گاڑیاں دیکھ رہی تھی۔ پر وہ کہیں نہیں تھا اسے کہیں نہیں ہونا تھا وہ جاچکا تھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پر فجر کے لیے یہ سب کسی برے خواب کی مانند تھا جیسے وہ بھی نیند سے جاگ اٹھے گی۔ وہ خود کو تھپڑ مار رہی تھی وہ خود کو اس برے خواب سے جگانا چاہتی تھی پر یہ خواب نہیں حقیقت تھی اور خوفناک تھی۔۔۔!!
”ارسل۔۔۔ ارسل پلیز آجائیں۔۔۔“ وہ وہیں کھڑی رہی۔ رستوران کے دروازے کے باہر، اُسکا نمبر ملاتی رہی پر مطلوبہ نمبر بندجارہا تھا۔ وہ کھڑی رہی۔ ٹھنڈ سے ٹھٹھر گئی۔ ہونٹ نیلے پڑگئے۔ گارڈز اسے دیکھ رہے تھے اور اسکی نگاہیں سڑک پر تھیں جیسے ابھی اسکی گاڑی آکر رکے گی اور وہ کہے گا۔
”دیکھو فجر میں آگیا۔ میں مزاق کر رہا تھا۔ ایم سوری۔۔“
اور وہ اُسے فوراً معاف کردے گی۔ وہ اس سے پہلی بار لپٹ جائے گی وہ اُسکو اور اسکی خوشبو کو قید کرلے گی وہ اسے کہیں نہیں جانے دے گی۔ پر وہ نہیں آیا۔ وہ واپس آنے کے لیے نہیں گیا تھا۔ رات کے دس بجے اور پھر گیارہ۔۔۔وہ کھڑے کھڑے اکڑ گئی۔ آنکھوں میں آنسوں جم رہے تھے پر وہ رو نہیں رہی تھی۔ وہ انتظار کر رہی تھی۔ اسے یقین تھا وہ آجائے گا وہ رات کے اس پہر اسے اکیلا نہیں چھوڑے گا پر وہ نہیں آیا۔
”کیا آپ کسی کا انتظار کر رہی ہیں۔۔؟؟“ گارڈ بالآخر قریب آتے بولا۔ فجر نے چونک کر اسے دیکھا۔ کچھ کہنے کے لیے لب کھولے پر وہ پھڑپھڑا کر رہ گئے۔ الفاظ گلے میں اٹک گئے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ آنکھیں لبالب بھرگئیں۔ اس نے بنا کوئی جواب پھر سے ارسل کا نمبر ملایا جو ابھی بھی بند جارہا تھا۔ وہ اسے میسجز کر رہی تھی پر شاید اس کا واٹس اپ بھی بند تھا۔
”کیا وہ واقعی اسے چھوڑ گیا تھا؟؟“ مشکل کا بہت مشکل تھا یہ قبول کرنا۔ پھر وہ بنا کچھ بولے ایک جانب چل پڑی۔ گھر میں اماں ابا کے پاس فون نہیں تھا کوئی اسے پوچھنے والا نہیں تھا۔ چمچماتی روشنیوں میں رہنا اسے راس نہیں آیا۔وہ اب فٹ پاتھ کنارے چل رہی تھی۔ دماغ کچھ سوچنے کے قابل ہوا تو الفاظ گڈمـڈ ہونے لگے۔
”فجر باہر جاتے وقت دوپٹہ سر پر اوڑھا کر۔ عورت کی عزت اسی میں ہے۔“ اماں کی آواز ابھری۔
”اوڑھتی ہوا اماں بس کبھی کبھی اتر جاتا ہے اور ارسل کو کوئی مسئلہ نہیں ہے میرے دوپٹہ سر پر نہ اوڑھنے سے۔ ویسے بھی وہ لوگ بہت اوپن مائنڈڈ ہیں انہیں ویسے بھی یہ سب نہیں پسند ہوگا۔۔۔“
اسے اپنی آواز دور کھائی سے آتی سنائی دی۔
”انہیں شرعی پردہ کرنے والی بہو چاہیے۔۔“
دل کٹ کر سینکڑوں ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ اور ہر ٹکڑا تڑپ رہا تھا۔
”ایک بات تو بتائیں ارسل۔۔۔“ اب وہ رستوران میں بیٹھی اس سے پوچھ رہی تھی۔ ”اگر آپکے پیرنٹس نہ مانے تو آپ کیا کریں گے؟؟ مجھے چنیں گے یا انہیں۔۔؟“
”وہ مان جائیں گے میں انہیں منالوں گا۔۔“
پر اس نے فجر کی بات کا جواب نہیں دیا تھا اور فجر آج احساس ہوگیا تھا کہ اسے اپنے پیرنٹس کو ہی چننا تھا اس لیے وہ اسکی ایسی باتیں ٹال دیتا تھا۔
ہارن کی تیز چنگاڑتی آواز سنائی دی اور ایک گاڑی شوں کی آواز سے اسکے قریب سے گزری۔ وہ گاڑی سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر چاروں جانب دیکھنا چاہا۔ گہری دھند میں اسے کچھ نظر نہ آیا۔ وہ حواسوں میں لوٹ آئی تھی اور اب سمجھ نہیں آیا کہ کہاں کھڑی تھی۔ اسے کچھ محسوس نہ ہوا نہ خوف نہ درد۔۔ وہ بس کھڑی رہی پھر فون نکال کر لوکیشن دیکھی تو گھر کے قریب ہی تھی۔ جانے وہ کب سے چل رہی تھی۔ رات کے اس پہر باہر اکیلے نکلتے جہاں عام لڑکیوں کی روح کانپ جائے وہیں فجر معراج اکیلی رہ گئی تھی۔ سامنے ہی مین سڑک تھی۔ وہ چلتے ہوئے وہاں تک آئی اور پھر ایک آٹو میں بیٹھ گئی۔ گھر کا پتہ اس نے سمجھا دیا تھا۔ آٹو والا موٹی چادر لپیٹے اب اس کے دیے گئے پتے کی جانب چل پڑا تھا۔
✿••✿••✿••✿
اماں موٹی چادر اوڑھے بےچینی سے صحن میں ٹہل رہی تھی۔ وہ سردی سے ٹھٹھر چکی تھی لیکن پریشانی تھی کیونکہ فجر ابھی تک گھر نہیں آئی تھی اتنا لیٹ تو وہ آج تک نہیں ہوئی تھی۔ چاروں اور کہرا تھا اور سوکھی ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔
”یا اللہ اس لڑکی کو عقل دے۔۔“ وہ اسکی عقل پر ماتم کرتے بولی اور تبھی دروازہ کھٹکا۔ اماں تیزی سے دروازت کی اور بڑھی اور پٹ سے دروازہ کھولا۔ سامنے ہی وہ کھڑی تھی۔ لٹھے جیسا سفید چہرہ لیے۔ وہ کسی روبوٹ کی مانند کھڑی رہی۔
”یہ کوئی وقت ہے گھر سے باہر رہنے کا۔“ اماں نے بازو سے پکـڑ کر اسے اندر کھینچا۔ آج اس کی چال میں آج اس کے وجود میں وہ غرور وہ مان نہیں تھا جو تب ہوتا تھا جب جب وہ ارسل سے مل کر آتی تھی۔
فجر نے ایک نظر اماں کو دیکھا۔ خالی خالی سی نظر۔ اسکی ساری بددعائیں قبول ہوچکی تھیں۔ وہ بنا کچھ کہے اندر کی جانب بڑھ گئی۔ اماں کی بھنویں سکڑ گئیں وہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ آخر اُسے ہوا کیا تھا؟؟
وہ اس کے پیچھے پیچھے ہی کمرے تک آئی۔
”کیا ہوا؟؟ یہ مُردے جیسی شکل کیوں بنا رکھی ہے؟؟“
اماں نے لہجے اور آواز کو سخت ہی رکھا۔ وہ کچھ نہ بولی۔ بیگ میز پر پھینک کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”بول فجر کیا ہوا ہے؟؟“ کمرے کی دھیمی روشنی میں بیٹھی فجر اماں کو وہ فجر نہیں لگی۔
”تیری بددعائیں قبول ہوگئی اماں۔ ارسل نے مجھے چھوڑ دیا۔۔۔“ اماں کے کندھے ڈھیلے پڑگئے۔ چہرے کے تاثرات نرم ہوئے جبکہ دل پر منوں بوجھ آگرا پر اگلے ہی پل اماں کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھری۔۔۔طنزیہ مسکراہٹ۔
”چل اچھا ہوا۔ سوجا اب۔ کل بلقیس کو بلاتی ہوں۔۔“
ان کے لہجے میں ذرا سا بھی تاسف نہیں تھا۔ وہ ذرا بھی افسردہ نہیں تھی۔انکی اکلوتی بیٹی کا دل اجڑ گیا تھا پر اماں کو کچھ محسوس نہ ہوا۔ وہ دروازے میں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ فجر یونہی بیٹھی رہی۔
بلقیس اماں کے دور دراز کی رشتہ دار تھی جانے کس گاؤں میں رہتی تھی۔ اُسکا بیٹا کیا کرتا تھا وہ کچھ نہیں جانتی تھی نہ کبھی پوچھا تھا اور نہ دلچسپی تھی۔
اماں اُسکے جواب کی توقع کر رہی تھی پر وہ کچھ نہ بولی۔ خاموش رہی اور اِس خاموشی سے اماں کو ڈر محسوس ہوا۔ فجر خاموش رہنے والوں میں سے نہیں تھی وہ تو حشرنشر کردیتی تھی۔ اماں کی ہر بات کا تڑخ جواب دیتی تھی۔ آج اُسے کیا ہوا تھا؟؟ اماں نے اُچنبھے سے منہ پر ہاتھ رکھا۔
”اب کیا بیٹھے بیٹھے پتھر ہونا ہے؟ سوجا چپ کرکے تیرے نصیب ہی ایسے ہیں۔۔“ اماں کے لفظوں نے زخمی سینے کو چھلنی چھلنی کردیا۔ اس نے بےساختہ اپنے دونوں ہاتھوں کو پیالے کی شکل میں جوڑ کر ہاتھ کی لکیروں کو دیکھا۔
”کیا اُن میں ارسل نہیں تھا؟؟ کیا وہ اُسکا نصیب نہیں تھا؟؟ کیا وہ بلقیس کے لڑکے کے لیے بنی تھی۔۔؟؟“ دل کرلایا تو آنکھوں میں آنسوں ابھر آئے۔
”تیرے ہاتھ خالی ہیں۔ ان میں کچھ نہیں ہے۔ کچھ تلاش نہ کر۔۔۔۔ سوجا“ اماں نے ایک اور وار کیا اور پھر دروازہ بند کردیا۔ وہ چہرہ ہاتھوں پر گرائے پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
کیا کسی نے کسی کو یوں بھی چھوڑا ہوگا؟؟
کیا کسی نے کسی کو یوں بھی جھٹکا ہوگا؟؟
کیا اسکی ساری وفاؤں کا صلہ یہ تھا؟؟؟
”ارسل۔۔۔۔“ وہ تڑپ اٹھی۔
” ارسل واپس آجائیں۔۔۔“ وہ بیٹھے بیٹھے بستر پر گرگئی۔ گھٹنے سینے سے لگائے وہ کسی گھٹڑی کی طرح گول مول سی پڑی سسک رہی تھی۔ وہ شخص اس کی روح نکال کر لے گیا تھا اور تکلیف جانے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
بیوٹی ان پرپل اس وقت تڑپ رہی تھی سسک رہی تھی۔
دنیا میں روزانہ ناجانے کتنے دل ٹوٹتے تھے، کتنے بریک اپس ہوتے تھے، کتنے رشتے ٹوٹتے تھے۔ کتنے پیارے بچھڑ جاتے تھے، مرجاتے تھے۔ سب کو تکلیف ہوتی ہوگی لیکن فجر کو لگتا تھا ساری تکلیفیں ملا کر اُسے دے دی گئی تھیں۔ درد حد سے سواء تھا اور ہمدرد کوئی نہ تھا۔
اماں بھرے دل کے ساتھ اپنے بستر میں آکر لیٹ گئی۔
”تو جیت گئی فجر کی ماں دیکھ فجر ہار گئی۔۔۔“ ابا کی آواز گونجی۔
”مجھے اُسکی خاموشی ڈرا رہی ہے۔۔۔“ وہ ہولے سے بڑبڑائی۔جبکہ ابا نے ہنسنے کی ناکام کوشش کی۔ جسم کو ذرا سا ہلانے پر انہیں کھانسی کا دورہ پڑتا تھا۔
”اب جیتنے کی باری میری ہے دیکھنا تو۔۔۔۔“ ابا کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ عجیب سی سفاکیت۔ آج منار بھی نہیں آئی تھی آج اسکی بھی ہار ہوئی تھی۔ اماں نے گھبرا کر ابا کو دیکھا پر کہا کچھ نہیں۔ آنے والے کل سے وہ ناواقف تھی۔
✿••✿••✿••✿
اگلے دن صبح سے ہی موسم ابر آلود تھا۔ وہ فجر کی نماز کے لیے نہیں اٹھی۔ اماں دروازہ بجا بجا کر چلی گئی لیکن وہ نہ اٹھی۔ صبح آٹھ بجے آسمان سیاہ گہرے بادلوں سے ڈھک گیا۔ ٹھندی ہوا ہڈیوں میں گھسی جارہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے دور کہیں بارش برس رہی ہو اور یہاں برسنے کو تیار ہو۔
”فجر اٹھ جا یونیورسٹی نہیں جانا تو نے؟؟“ اماں آوازیں دے رہی تھی۔انکے لیے سب کچھ نارمل تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
”فجر۔۔۔نو بج گئے ہیں۔“ اماں کی کوفت زدہ آواز ابھری۔
اور پھر کھٹاک سے کمرے کا دروازہ کھلا۔ فجر باہر نکلی۔ سوجھی آنکھیں، ستا ہوا چہرہ، وہ ساری رات سوئی نہیں تھی اور اس وقت سفید کدھر کا موٹا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ سر پر سفید سکارف تھا اور سیاہ موٹی شال کندھوں پر تھی۔
اسکا چہرہ سپاٹ اور تاثرات سے عاری تھا۔ یقیناً وہ یونیورسٹی جانے کے لیے تیار تھی۔ پر سفید سوٹ پہن کر؟؟
وہ تو ہمیشہ سفید کے ساتھ کمبینشن میں پہنتی تھی۔
”کدھر جارہی ہو صبح صبح؟؟“ اماں نے اچنبھے سے پوچھا۔
وہ کچھ نہ بولی۔ بیگ کندھے سے لٹکائے وہ تیز تیز قدم اٹھاتی گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔ یقیناً یونیورسٹی جارہی تھی۔
”یونیورسٹی سے سیدھا گھر آنا بلقیس نے آنا ہے آج۔۔“ گھر کا دروازہ پار کرتے اماں کی آواز سنی اور وہ پھر وہ دہلیز پار کر گئی۔ یہ سفید سوٹ اس نے ایسے ہی نہیں پہنا تھا۔ اپنی محبت کو ایک آخری موقع دینا تھا۔ وہ ارسل کے آفس جارہی تھی۔
آٹو میں بیٹھے اُس نے شال کو اچھے سے خود کے گرد لپیٹا۔ ارسل کا ہونا کتنا محفوظ احساس دلاتا تھا اور اب وہ اکیلی تھی۔ یوں لگا جیسے پوری دنیا میں وہ غیر محفوظ رہ گئی ہو۔ آنکھوں میں نمی ابھری اور جلن بڑھ گئی۔
اس نے ساری رات سوچتے گزاری تھی۔ اس نے سوچا تھا وہ پہلے اسکے آفس جائے گی اسے منانے کی کوشش کرے گی۔ وہ اسکے لیے سب کچھ کرے گی۔ وہ شرعی پردہ کرلے گی وہ فیشن ڈیزائننگ چھوڑ دے گی۔ اور اگر وہ نہ مانا۔۔۔۔؟؟
پھر وہ کسی گاڑی کے نیچے آکر مرجائے گی کیونکہ وہ جی نہیں سکتی تھی۔ اپنی محبت ہار کر، اماں سے ہار کر تو بالکل نہیں۔ اسی لیے وہ سفید سوٹ پہن آئی تھی۔ کیا پتا کفن ملتا بھی یا نہی۔۔۔۔!! اس وقت وہ سفاک تھی خود کے لیے اپنی جان کے لیے۔
وہ کبھی ارسل کے آفس نہیں گئی تھی۔ اس نے باہر سے بھی نہیں دیکھا تھا اور رات اس نے انٹرنیٹ سے اسکے آفس کی لوکیشن نکالی تھی۔ گردیزی ٹیکسٹائل کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے گردن پیچھے جھکا کر شیشوں والی اونچی عمارت کو دیکھا۔ شان وشوکت سے کھڑی گردیزی ٹیکسٹائل!
ایک گہرا سانس لیا پھر اپنا بیگ سنبھالتے اندر چلی گئی۔ صبح کے دس بج چکے تھے۔ یقیناً وہ آفس ہی ہوگا۔ اس نے موبائل نکالا اور اسکا نمبر ملایا پھر نمبر بند جارہا تھا۔ اندر ریسیپشن پر پہنچنے کے بعد اس نے ارسل کا پوچھا۔
” آپکا تعارف؟؟“ ریسیپشن پر بیٹھی خوبصورت سی لڑکی نے پوچھا۔
”میں فجر ہوں فجر معراج۔ آپ پلیز انہیں بتائیں وہ خود آجائیں گے۔۔“ محبت یقیناً انسان کے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج کر دیتی ہے ورنہ رات والے واقعے کے بعد وہ کبھی پلٹ کر اسے نہ دیکھتی۔
”اوکے میم! ویٹ کیجیے پلیز۔۔۔“ وہ اب کریڈل اٹھائے مطلوبہ ایکسٹینشن ڈائل کررہی تھی جبکہ فجر چمچماتی دیواروں اور فرش کو دیکھتے ہوئے اب تھوک نگل رہی تھی نگاہیں چاروں جانب ہی اسے ڈھونڈ رہی تھیں۔ کاش وہ کہیں سے آجائے۔ کاش وہ نظر آجائے۔
”جی سر۔۔۔اوکے سر۔۔“ دوسری جانب سے کچھ کہا گیا۔ لڑکی نے کریڈل واپس رکھ دیا۔
“سوری میم لیکن ارسل سر آپ کو نہیں جانتے آپ جا سکتی ہیں۔۔“ فجر کا چہرہ سفید پڑگیا۔
وہ اسے نہیں جانتا تھا؟؟ وہ جس نے ساتھ جینے کے کتنے خواب دیکھے تھے وہ اس سے انکاری تھا؟؟
”وہ مجھے جانتے ہیں۔۔۔“ وہ اب فون پر اس کا نمبر ملارہی تھی جو ابھی بھی بند تھا۔
”آپ پلیز میری ایک بار بات کروادیں مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔“ اس نے ریسیپشنٹ کی منت کی پر اسے بھی حکم ملا گیا تھا۔ اسے اپنی جاب پیاری تھی۔
”پلیز میری ایک بار بات کروادیں۔۔“ وہ رودینے کو تھی۔ سوکھے ہونٹ اور سوجھی آنکھیں لیے یہ دو دن پہلے والی فجر معراج نہیں لگ رہی تھی۔ بیوٹی ان ریڈ والی فجر معراج!
”کیا ہو رہا ہے یہاں؟؟“ ایک سخت سی آواز اسے عقب سے سنائی دی۔ برہان گردیزی ابھی ابھی آفس میں داخل ہوئے اور فجر کو دیکھ چکے تھے۔ فجر نے جھٹکے سے پلٹ کر انہیں دیکھا۔
”انکل میری بات سنیں۔۔۔“ وہ بےتاب سی انکی جانب بڑھی۔
”وہیں رک جاؤ لڑکی۔۔۔“ ہاتھ اٹھا کر اسے روکا گیا۔ ان کے دائیں بائیں انکے دو ملازم کھڑے تھے۔
”اسے اندر کس نے آنے دیا؟؟“ وہ اب گارڈز پر برس رہے تھے۔
”انکل مجھے ضروری بات کرنی ہے۔۔“ اس نے سرخ متورم آنکھوں سے منت کی۔
”نکالو اسے یہاں سے باہر اور مجھے دوبارہ نظر نہ آئے۔۔“ وہ نخوت سے کہتے آگے بڑھ گئے جبکہ گارڈز کے بھاری بوٹوں کی آواز ابھری۔ وہ فجر کی جانب بڑھے اب وہ اسکا راستہ روکے کھڑے سے۔ اسے باہر جانے کا کہہ رہے تھے۔
”انکل پلیز! میری بہن کی غلطی کی سزا مجھے مت دیں۔۔“ وہ انکی جانب لپکی۔
انسان مرنے سے پہلے اپنے ہاتھ پاؤں مارتا ہے وہ پوری کوشش کرتا ہے کسی طرح بچ جائے وہ اپنا پورا زور لگاتا ہے اور فجر یہی کرنے آئی تھی۔ اسے موت اتنی جلدی قبول نہیں تھی۔
وہ ان تک پہنچنے کے لیے مچل رہی تھی۔ لیکن گارڈز نے اسے دونوں بازوؤں سے پکڑ لیا اور فجر ساکت ہوئی۔
گارڈز اب اسے باہر لے جارہے تھے۔
ایسی ذلت ایسی سبکی۔۔۔۔کاش وہ مرجاتی۔۔۔۔!!
”چھوڑو مجھے، ہاتھ مت لگاؤ۔۔“ وہ خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرنے لگی اور تبھی اس کی نظر اٹھی۔ بالائی منظر پر گول ریلینگ کے پار ایسکلیٹر کے قریب ارسل کھڑا تھا جو اس کا سب کچھ تھا۔ وہ خاموشی سے تماشہ دیکھ رہا تھا۔ وہ جو فجر کے کسی اور کو دیکھنے پر ہنگامہ کھڑا کر دیتا تھا آج وہ فجر کو گارڈز کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھ کر خاموش کھڑا تھا۔
وہ فجر معراج کی دنیا تھا وہ سب کچھ تھا۔ وہ اس کا بچھڑنا برداشت نہیں کر پارہی تھی اور پھر ایک لمحہ ہوتا ہے وہ لمحہ جس میں ہماری محبت ہماری ہی نظروں میں گر جاتی ہے۔ اور فجر کے لیے یہ لمحہ وہی تھا۔۔وہ آنکھوں پر چشمہ جماتے واپس پلٹ گیا۔ وہ آخری نظر تھی وہ آخری موقع تھا جو وہ شخص گنوا چکا تھا اور فجر کا سر جھک گیا۔ اس کی محبت اس کی اپنی نظروں میں گر گئی۔ گارڈز نے گلاس ڈور کھول کر اسے باہر نکال دیا۔
اور پھر ہر انسان کی زندگی میں ایک لمحہ وہ بھی آتا ہے جب وہ اپنے ہی دل پر قدم رکھ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔
ارسل برہان کی زندگی میں یہ لمحہ ایک دن پہلے آ چکا تھا اور فجر معراج کی زندگی کا یہ لمحہ اب تھا۔
وہ لمحہ جو عذاب تھا۔۔! وہ لمحہ جو آغاز تھا۔۔!
ایک قدم رکھنا تھا دل پر اور سب آسان ہوجاتا بس وہ ایک قدم اٹھانا تھا۔ وہ پتھر کا بت بنے کھڑی رہی۔ دل جیسے سینے میں بند ہوچکا تھا۔ آنکھیں ضبط سے میچ لیں۔ محبت دل سے اتری تو اس نے دل پر قدم رکھ ہی دیا۔ گردیزی ٹیکسٹائل کی عمارت شان و شوکت سے کھڑی تھی۔ ہوا کے تھپیڑے اس سے ٹکرا کر واپس پلٹ رہے تھے۔ اب وہ گردیزی ٹیکسٹائل کے مخالف قدم بڑھا چکی تھی۔ پہلا قدم ارسل برہان سے دوری کا پہلا قدم۔۔۔۔ اسے لگ رہا تھا اس نے ارسل کو گنوایا تھا پر حقیقت یہ تھی وہ شخص فجر معراج کو گنوا چکا تھا۔ وہ اسے کھو چکا تھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
✿••✿••✿••✿
بارش یک دم ہی شروع ہوئی اور پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ کندھے پر بیگ جمائے تیز تیز چلتا بس اسٹاپ کی جانب بڑھا رہا تھا۔ گیلی شاہراہ پر اس وقت گاڑیاں تیزی سے مخالف سمت میں آ جارہی تھیں۔ بس اسٹاپ خالی تھا۔ شہر کا یہ سب سے ڈیویلپڈ ایریا تھا شہر سے تھوڑا باہر جہاں بڑی بڑی عمارتیں کھڑی تھیں اور یہ ایریا ٹیکسٹائل انڈسٹری سے منسوب تھا۔
وہ جیسے ہی بس اسٹاپ پر پہنچا اس نے اپنا بیگ اتار کر بینچ پر رکھا جسکے اوپر لوہے کا شیلٹر بنا تھا اور نیچے مسافر دھوپ، سردی اور بارش کے موسم میں، کھڑے ہوکر بس کا انتظار کرتے تھے۔ شیلٹر کے دونوں جانب کی دیوار شیشے کی بنی تھی تاکہ بارش سے بچا جا سکا۔ مزید سمجھا جائے تو یہ ایک چھوٹی سی جھونپڑی ٹائپ بنا تھا جسکے آگے پیچھے کی دیوار خالی تھی جبکہ دائیں بائیں شیشے کی دیواریں تھیں۔ دن کے اس وقت بس اسٹاپ پر رش نہیں تھا لوگ اپنے اپنے دفتر وقت پر پہنچ چکے تھے۔ یہ سب سے بہترین موقع تھا۔ اس نے اپنے بیگ سے اسٹیںند نکالا اور زمین پر جما دیا تین ٹانگوں والا یہ لوہے کا نازک سا دکھنے والا اسٹینڈ کافی مضبوط تھا۔ اِس نے بعد اُس نے کیمرہ نکالا اور اسٹینڈ پر جما دیا اور اسے تھوڑے سے فاصلے پر رکھا۔ ویڈیو ریکارڈنگ شروع ہوچکی تھی۔ اُسکا چہرہ سپاٹ تھا جبکہ ہاتھ تیزی سے کافی کر رہے تھے اب اپنے بیگ سے ایک چھوٹی سی سیاہ رنگ کی اسپیکر نما گول مشین نکالی۔ یہ اتنی چھوٹی تھی کہ اِسے ہتھیلی میں بند کیا جا سکتا تھا۔ اس مشین کے ساتھ اُس نے ہیڈ فون کی تار اٹیچ کی اور سیاہ کیپ کے اوپر سے ہیڈ فون کو کانوں پر جما لیا۔ وہ اس وقت بھی سیاہ کیپ اوڑھے ہوئے تھا جس سے اُسکا آدھا چہرہ چھپا ہی رہتا تھا۔
بس اسٹاپ کی پچھلی جانب آدھے کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بڑی سی عمارت تھی۔ گردیزی ٹیکسٹائل۔
وہ اپنا سیٹ اپ کر رہا تھا جب ایک لڑکا بھاگتے ہوئے بس اسٹاپ تک پہنچا وہ کچھ دیر اسے کام کرتے دیکھتا رہا اور پھر بس جیسے ہی بس آکر رکی آٹو میٹرک دروازہ کھلا تو وہ اندر چلا گیا۔ بس سے دو لڑکیاں اتریں جنہوں نے چھاتہ پکڑا ہوا تھا وہ کچھ دیر اُسے دیکھتی رہیں اور پھر گردیزی ٹیکسٹائل تک جانے والی چھوٹی سی سڑک کی جانب چل پڑیں۔ شاید انکی آفس ٹائمنگ یہی تھی۔
ہیڈ فون کو کانوں پر سیٹ کرنے کے بعد اُس نے اس مشین کو چھوٹی سی گلاس وال پر جمادیا۔ وہ کسی مقناطیس کی طرح گلاس سے چپک گئی۔ گلاس وال پر پانی تیزی سے بہہ رہا تھا پھر اُس نے مشین پر موجود ایک چھوٹا سا بٹن دبایا اور آنکھیں بند کرلیں۔ کچھ فاصلے پر رکھا کیمرہ یہ سب ریکارڈ کر رہا تھا جس میں اسکا چہرہ واضح نہیں تھا وہ اپنے چہرے کو سامنے نہیں لاتا تھا۔ وہ اب مشین کے پاس کھڑا تھا چہرہ جھکا ہوا تھا اور گلاس وال پر لگی مشین واضح نظر آ رہی تھی۔ سیٹنگ کرتے اس کے ہاتھ واضح تھے۔ سیاہ بیگی پینٹ پر بھوری اوور سائزڈ گول گلے والی اونی شرٹ پہنے وہ بند آنکھوں کے ساتھ کسی اور دنیا کا باسی لگا۔
جیسے ہی بٹن آن ہوا ٹپ ٹپ کی تیز آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ کوئی عام انسان اُسے دیکھے تو سمجھ ہی نہ پائے آخر وہ کیا کر رہا تھا۔
وہ ایک فیلڈ ریکارڈسٹ تھا۔ وہ قدرتی آوازوں کو ریکارڈ کرتا تھا۔
ہوا کی، بارش کی، پتوں کی، درختوں کی، گلیشیرز کی، پونڈ کی، پول کی، دریا کی، ریت کی، مٹی کی، گھاس کی، آندھی اور طوفان غرض کہ قدرتی طور پر پیدا ہونے والی ہر آواز کو ریکارڈ کرنا اُسکا کام تھا۔ اُس کے پاس مختلف میڈیمز کے لیے مختلف مشینیں اور ڈیوائس تھیں۔ وہ یہ آوازیں ریکارڈ کرتے وقت ویڈیوز بناتا تھا اور اس پل بھی وہ یہی کام کر رہا تھا۔ کئی ثانیے گزر گئے وہ یونہی کھڑا رہا۔
”ولیم ہیلپ می۔۔۔!!“ تیز جھنجھناتی آواز اُبھری اور اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ جانے وہ کتنی دیر کھڑا رہا تھا۔ جانے اسکا دماغ کہاں غائب رہا تھا۔ اس نے چاروں جانب نظر دوڑائی کوئی بھی نہیں تھا۔ گاڑیاں شوں کی آواز سے گزر رہی تھیں۔ اس نے گہرا سانس لیا اور پھر اسٹینڈ پر لگے کیمرہ کے پیچھے آ کر کھڑا ہوگیا۔ تھورا جُھکا اور پھر سلو موشن پر سیٹ کرکے اس نے کیمرہ کا رخ بائیں جانب موڑا جہاں سڑک تھی اور گاڑیاں تیزی سے گزر رہی تھیں۔ بارش پہلے سے ہلکی تھی۔ اب وہ کیمرہ گُھما رہا تھا سڑک سے ہوتا کیمرہ واپس گلاس وال پر چپکی مشین تک آیا اور پھر دائیں جانب مڑ گیا۔ بس اسٹاپ کے پیچھے پودے لگے تھے وہ اب زوم کرکے پتوں پر گرتی بارش ریکارڈ کر رہا تھا۔ کیمرہ تھوڑا اور دائیں جانب گھمایا تو پتلی سی سڑک پر، جو بس اسٹاپ کی جانب آرہی تھی، وہ آتی دکھائی تھی۔ سیاہ شال لپیٹے ٹپ ٹپ گرتی بارش میں وہ غائب دماغی سے چل رہی تھی۔۔۔۔۔
اور کیمرہ وہیں ٹھہر گیا۔ ہاتھ ساکت ہوئے وہ جو کیمرہ کے لینز پر جھکا ہوا تھا وہیں رک گیا۔ گردن کو تھوڑا دائیں جانب گرایا کیمرہ لینز کی بجائے اپنی کتھئی آنکھوں سے اُسے دیکھا۔ سفید رنگ اس کا پسندیدہ رنگ تھا۔۔۔۔۔
“Beauty in White..”
وہ اس کے سامنے تھی وہ اسی جانب آرہی تھی۔ سرد آنکھوں کا تاثر نرم پڑگیا۔ بھنچے ہوئے جبڑے ڈھیلے پڑے۔ وہ انسانوں کی تصویریں نہیں لیتا تھا۔ وہ انہیں ریکارڈ نہیں کرتا تھا لیکن وہ اس کے کیمرہ میں خود بخود آگئی تھی۔ وہ سیدھا ہوا اور کیمرہ بند کردیا۔ اسٹینڈ سے اتار کر بینچ پر رکھا اور اسٹینڈ لپیٹ کر بیگ میں رکھنے لگا۔ وہ بس اسٹاپ تک آئی اور غائب دماغی سے کھڑی رہی۔ اس نے پاکستان میں پہلا بریک اپ دیکھا تھا۔ پہلی بار کسی لڑکی کو یوں کسی مرد کے پاؤں پڑتے دیکھا تھا۔
وہ وہیں کھڑی تھی شاید بس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے کپڑے کسی حد تک گیلے ہوچکے تھے۔ ٹھندی ہوا چلنے کے باعث ہونٹ نیلے پڑگئے جبکہ ناک سرخ۔
ولیم نے ایک نظر فجر کو دیکھا اور پھر اپنی مشین گلاس وال سے اتار لی۔ اس کا کام ختم ہوچکا تھا وہ وہاں سے جا سکتا تھا پر وہ گیا نہیں۔۔۔۔
وہ ملکوں ملکوں گھومتا تھا پر وہ لوگوں سے کم ہی بات کرتا تھا۔ اس وقت بھی اسے سمجھ نہ آیا بات کرنی چاہیے یا نہیں۔
وہ بت بنی اسکے بائیں جانب کھڑی رہی۔
”ولیم۔۔۔“ اس کے داہنے کان کے قریب کسی نے سرگوشی کی۔ وہ پھر سے آگئی تھی۔ وہ ہیولا۔۔۔ وہ ساکت ہوا۔ وہ جانتا تھا وہ اسکے قریب ہی کھڑی تھی۔ سلک کے سفید لہلاتے سلیولیس گاؤن میں، بھورے اڑتے بالوں کے ساتھ، ننگے پاؤں وہ پھر آگئی تھی۔
”ولیم ہیلپ ہر۔۔“ ایک اور سرگوشی ابھری۔ وہ ہمیشہ ”ہیلپ می“ کہتی تھی آج اس نے پہلی بار ‘Help her’ کہا تھا۔ وہ کسی اور کی مدد کرنے کا کہہ رہی تھی۔ ولیم نے ذرا سی گردن موڑ کر دیکھا۔ وہ بائیں جانب تھی۔ بیوٹی ان وائٹ عجیب سی نظروں سے دائیں جانب سے آتی تیز رفتار گاڑی کو دیکھ رہی تھی۔ وہ دیکھتی رہی۔ گاڑی قریب آرہی تھی اور پھر اگلے ہی پل وہ بس اسٹاپ سے نیچے اتری اب وہ اسکا رخ سڑک کی جانب تھا وہ چاہتی تھی گاڑی اسے کچل دے۔ گاڑی مزید قریب آ ئی۔ ہارن بجنے لگا وہ انتظار کر رہی تھی گاڑی کے اورر قریب آنے کا۔ مسافروں سے بھری، بڑی تیز رفتار بس، جو اسے کچل کر آگے بڑھ جاتی۔
وہ جانتا تھا اگلے پل وہ کیا کرنے والی تھی۔ اسکی حواس خمسہ بہت تیز تھی۔ وہ جانتا تھا وہ خودکشی کرنے جارہی تھی۔ وہ جانتا تھا بریک اپ کے بعد اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں۔ وہ سب جانتا تھا پر بت بنا کھڑا رہا۔ وہ اسکی مدد کرنا نہیں چاہتا تھا وہ چاہتا تھا بیوٹی ان وائٹ اس کے سامنے دم توڑ دے پر۔۔۔۔۔۔
“William Help Her..”
آواز اتنی اونچی تھی کہ ولیم کے وجود کو جھٹکا لگا اگلے ہی پل وہ اچھل کر فجر تک پہنچا اور اس نے اپنی پوری قوت سے اسے واپس کھینچ لیا۔ گاڑی ہارن بجاتی شوں کی آواز سے گزر گئی۔ وہ کسی خواب سے جاگی۔
“Are you Mad..??”
وہ غصے سے چلایا۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ پسلیاں توڑ کر باہر نکلنے کو تیار۔۔۔۔اور ایسی ہی حالت فجر کی تھی۔ وہ تو جیسے اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔ اس نے ایک پل کے لیے اپنے مردہ، ٹکڑوں میں بٹے وجود کو خون میں لتھڑے سڑک پر پڑا تصور کیا۔ اور اگلے ہی پل اس نے سر اٹھا کر دیکھا وہ اسکے قریب کھڑا تھا۔ شعلے بار آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے۔ وہ جبڑے بھینچے ہوئے تھا۔ اس کی کتھئی آنکھوں میں بےپناہ غصہ تھا اور اگلے ہی پل اس نے جھٹکے سے فجر کو خود سے دور کیا۔
“Do you think it’s easy to die?”
”تمہیں کیا لگتا ہے مرنا اتنا آسان ہے۔۔؟؟“ وہ اب اپنا بیگ اٹھا رہا تھا۔ اسکی انگلش شستہ تھی۔ فجر اسے بخوبی سمجھ سکتی تھی کیونکہ انگریزوں سے بات کرنا اسکا روزانہ کا کام تھا۔
“Idiot, stupid..”
وہ اب اسے سنا رہا تھا۔ جھنجھلایا ہوا۔
“You Lily_Livered”
وہ جھٹکے سے مڑا اور انگلی اٹھا کر اسے نئے القاب سے نوازہ۔ بس نہیں چل رہا تھا ایک دو بار تھپڑ جڑ دیتا۔
فجر حیرت سے اسے دیکھے گئی۔ اس نے پہلی بار یہ لفظ سنا تھا اور اس کا مطلب ہوتا ہے بزدل شخص۔ اسکی انگلش اچھی تھی پر vocabulary ابھی اتنی اچھی نہیں ہوئی تھی۔ کوئی اور موقع ہوتا وہ فٹافٹ گوگل سے مطلب دیکھتی اور پھر فون ولیم کے سر میں دے مارتی پر فی الوقت فجر کے جبڑے بھنچ گئے۔ کچھ بولنا چاہتی تھی پر کچھ نہ بولی خاموشی سے قدم بڑھا کر بینچ پر بیٹھ گئی۔ جبکہ وہ اپنا سامان اٹھائے، بیگ کندھے پر لٹکاتا، دائیں جانب چل پڑا۔ وہ وہیں بیٹھی رہی۔ نظریں پھر سے خالی ہوگئی۔ دل ایک بار پھر کُرلایا۔ ہاں مرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ بارش بند ہوگئی۔ آنکھیں پھر سے جلنے لگیں۔ اماں کی صبح والی بات یاد آئی۔
بلقیس کے لڑکے سے اماں اُس کی شادی کرنا چاہتی تھی۔ وہ ہار گئی تھی۔ وہ اماں سے ہار گئی تھی پر یہ ہار قبول نہیں ہورہی تھی۔ ٹھٹھرتی سردی سے وجود کپکپانا شروع ہوا۔ وہ اب بینچ پر بیٹھی کانپنے لگی۔ کیوں بچایا تھا اُس نے؟؟ مرجاتی تو اچھا تھا۔ دل پر قدم رکھ کر آگے بڑھ آئی تھی وہ ارسل کو اپنی زندگی سے نکال چکی تھی پر دل کیوں تڑپ رہا تھا؟؟ اتنی ٹھنڈ میں بھی یہ جلن کم کیوں نہیں ہورہی تھی؟؟
وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا اُس سے دور ہوا۔ دماغ بری طرح گھوم چکا تھا۔ کیا ہوتا اگر وہ اُسے نہ بچاتا؟؟ بیوٹی ان وائٹ مرجاتی۔ وہ جھرجھری لے کر رہ گیا۔
”کیا تم اُسے ایسے ہی چھوڑ دو گے۔۔؟؟“ وہ ہیولا اب اُس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ پر ولیم نے نظر اٹھا کر ہیولے کو نہیں دیکھا۔ آج بھی اُس کی وجہ سے اس نے ایک انجان لڑکی کی جان بچائی تھی۔
”اگر اُس نے پھر سے خودکشی کی کوشش کی تو؟؟“ اِس بار وہ رک گیا۔ پلٹ کر دیکھا تو فجر وہیں بیٹھی تھی۔ اُس نے ضبط کرتے چہرے پر ہاتھ پھیر کر گہرا سانس فضا میں خارج کیا اور پھر واپس بس اسٹاپ کی جانب قدم بڑھا دیے۔ اگلے چند لمحوں میں وہ اُس سے کچھ فاصلہ رکھے بیٹھا تھا۔
وہ آکر بیٹھ تو گیا تھا پر نہیں جانتا تھا کیا بولے؟؟ بات کہاں سے شروع کرے؟ اُسے دلاسے دینے نہیں آتے تھے۔ وہ کسی کا دکھ نہیں بانٹ سکتا تھا پر اِس پل چاہتا تھا کہ وہ لڑکی جسکا نام تک وہ نہیں جانتا تھا وہ خودکشی کا نہ سوچے۔
”زندگی میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، محبت بھی ہو جاتی ہے اور بچھڑ بھی جاتی ہے پر زندگی رُکتی نہیں۔۔“ وہ خود کو ریلیکس کرتے بولا۔ لہجہ نارمل تھا فجر خاموش بیٹھی رہی۔
”زندگی میں آنے والا ہر شخص آپکا نہیں ہوتا اور کوئی بار بار آپکو بچانے نہیں آتا۔ اپنی زندگی کی قدر کرنا سیکھو۔۔“ وہ ہولے ہولے بولتا رہا۔ فجر کے وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔
”ویسے تمہیں میری بات سمجھ آرہی ہے نا؟؟ انگلش تو آتی ہے نا تمہیں۔۔؟؟“ اس نے گردن کا رخ موڑ کر فجر کو دیکھا۔ اُسکی بات سنتے ہی فجر کی تیوری چڑھی۔ اس نے جھٹکے سے ولیم کو دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ چبا چبا کر بولی۔
”انگلش آتی ہے مجھے پر آپ کو گیان جھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔“ اسکا لہجہ برٹش تھا۔ ولیم جتنا پرفیکٹ تو نہیں لیکن وہ اُسکی بات سمجھ گیا۔ وہ اب سڑک کنارے بنے چھوٹے سے کھڈے پر نظریں جمائے بیٹھی تھی جس میں بارش کا صاف پانی جمع تھا اور شیلٹر کی چھت سے ٹپکتا پانی قطرہ قطرہ اس میں گررہا تھا۔ ہر قطرے پر گول گول لہریں ابھرتیں اور کنارے تک آتی مٹ جاتیں۔ ٹپ کی آواز ابھرتی اور خاموشی چھا جاتی۔
”ایک فارنر جس نے تمہاری جان بچائی ہو اُس سے ایسے بات کرتی ہو تم؟؟“ وہ ابرو اچکائے پوچھنے لگا۔
”تم جیسے لوگوں سے بات کرنا روز کا کام ہے میرا۔ میں اچھے سے جانتی ہوں فارنرز کو۔۔۔“ وہ چاہتی تھی یہ بات جلد ختم ہو تاکہ وہ فارنر اسکی جان چھوڑ دے۔ اسکا ذہن فی الوقت کہیں اور الجھا تھا۔ اماں کی بد دعاؤں نے اس کی محبت چھین لی تھی اب اُسے اماں سے بدلا لینا تھا۔۔۔۔پر کیسے؟؟ یہی سمجھ نہیں آرہا تھا۔
”اچھا ایسا کیا کرتی ہو تم؟؟“ سوال پہ سوال۔ وہ انگریز پاگل تھا فجر کو تو کم از کم یہی لگا۔ اور انسانوں سے اُکتایا ولیم ایک اجنبی سے یوں بات کر رہا تھا اگر اسکے بہن بھائی دیکھ لیتے تو ضرور بےہوش ہوجاتے۔
”کال سینٹر میں جاب کرتی ہوں۔۔۔“ وہ ہولے سے بولی۔
”او مائے گاڈ۔۔۔“ ولیم کو تو جیسے کرنٹ لگا۔
”تو وہ تم لوگ ہو؟؟“ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگا۔ جیسے کوئی معمہ حل ہوگیا ہو۔ گہرا راز ہاتھ لگ گیا ہو۔
”تم لوگ ہو وہ جو ہمارے ساتھ Scam کرتے ہو؟؟“ وہ گہرے صدمے سے بولا یوں جیسے یقین کرنا مشکل ہو۔ فجر کے ہونٹ بھنچ گئے۔ اس کی آنکھیں چھوٹی ہوگئیں وہ اسے گھور رہی تھی اور اگلے ہی پل وہ حلق کے بل چلائی۔
”اور تم لوگ جو پوری دنیا کے ساتھ سالوں سے کرتے آرہے ہو وہ کیا ہے؟؟“ ولیم کو لگا کم از کم وہ اپنا بیگ اُسکے سر پر دے مارے گی یا اُسکا سر زمین میں۔۔۔ بے ساختہ اُسکے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا جسے وہ چھپا گیا۔ وہ یہی چاہتا تھا کہ وہ بےوقوف لڑکی خودکشی کو ذہن سے نکال دے۔ وہ اُسکا ذہن بھٹکا رہا تھا۔
کچھ پل کی خاموشی چھا گئی وہ نہیں جانتا تھا کیا جواب دے۔ پر اسے وہاں بیٹھنا اچھا لگا۔ وہ جان گیا تھا وہ بیوٹی ان وائٹ بس دیکھنے میں معصوم تھی۔ وہ شاید کسی ایک لیے ہی نرم تھی ورنہ باقیوں کو تو وہ شاید گھاس بھی نہیں ڈالتی ہوگی۔ باقیوں کے لیے یقیناً وہ ڈائن ہوگی۔
”کچھ سال بعد جب تمہاری شادی ہو جائے گی جب تم اپنے ہسبنڈ اور بچوں کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزار رہی ہوگی تب تمہیں اس خودکشی کا خیال آئے گا اور تم خود پر ہنس دو گی۔۔۔“
وہ سنجیدہ تھا۔ فجر کا دل پھر سے تڑپ اٹھا۔ شادی کرنی ہوتی تو ارسل ہی کرلیتا اور اب وہ کس پر بھروسہ کرے گی؟؟ کسی پر نہیں کسی بھی مرد پر نہیں۔ پر اماں کا کیا؟؟ اس نے اپنی ضد پوری کرلی تھی اور اب اماں بلقیس کے لڑکے سے اسکی شادی کی ضد لگا کر بیٹھی تھی اور پوری کیے بنا سکون سے نہ بیٹھتی۔ ساری کوششوں کے باوجود ارسل جا چکا تھا۔ آنکھوں میں آنسوں پھر سے بھرنے لگے۔ خودکشی کی کوشش کے باوجود وہ بچ گئی تھی۔ اب باقی کیا بچتا تھا؟؟
اماں سے بدلا۔ بس اب یہی باقی تھا۔ یہ تو طے تھا وہ کسی بلقیس کے لڑکے سے شادی نہیں کر سکتی تھی ہرگز نہیں۔۔۔ تو پھر ایسا کیا کرتی کہ اماں ویسے ہی ٹوٹ جاتی جیسے وہ ٹوٹی تھی۔ ایسا کیا کرتی کہ اسے کبھی کسی سے شادی نہ کرنی پڑتی؟؟
وہ سوچ رہی تھی اور پھر ایک جھماکہ سا ہوا۔ سنسناتی ہوا نے ماضی کے پنّے تیزی سے پلٹے۔
”اماں مجھے فیشن ڈیزائنر بننا ہے۔ باہر پڑھنے جانا ہے۔ اپنا نام بنانا ہے۔۔“
”ہاں جیسے اورنگزیب کی بیٹی گئی تھی اور پھر وہیں کسی انگریز سے شادی کرلی۔۔۔“ اماں کا جملہ سماعت سے ٹکرایا۔ اورنگزیب کون تھا وہ نہیں جانتی تھی پر اُسکی بیٹی سے اماں کو شدید نفرت تھی۔ وہ اکثر اُسکا ذکر برے لفظوں میں کرتی تھی۔
فجر آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔ اسے بدلا لینے کی ایک کڑی مل گئی تھی۔
”اپنی زندگی آزادی سے جیو جب تک کوئی اچھا لڑکا تمہیں مل نہیں جاتا پھر اُس سے شادی کرلینا۔۔۔“
اس نے گردن موڑ کر دائیں جانب بیٹھے ولیم کو دیکھا وہ اسے سمجھا رہا تھا۔
”مجھ سے شادی کون کرے گا؟؟“ وہ ہولے سے بڑبڑائی۔ ولیم نے اُسے دیکھا۔ اپنی کتھئی آنکھوں سے۔۔۔۔
فجر کا چہرہ روشن تھا۔ بالوں کی چند گیلی لٹیں دونوں جانب چہرے سے چپکی ہوئی تھیں۔ خوبصورت ہونٹ نیلے پڑگئے تھے، آنکھیں روشن تھیں اور اسکی ٹھوڑی پر چمکتا وہ تل۔۔۔۔ “Breathtaking” ہولے سے بڑبڑایا۔ یہ انگریز تعریف کے معاملے میں ذرا کنجوسی نہیں کرتے۔
دل بلاوجہ ہی گدگدایا اور وہ دل کو گالیاں دیتے چہرے کا رخ موڑ گیا۔
”کوئی بھی کرلے گا۔۔۔“ وہ اُسے breathtaking کہہ رہا تھا جسکا نام تک نہیں جانتا تھا۔
“Will You??”
اس بار وہ جھٹکے سے مڑا۔ فجر اپنی چمکتی آنکھیں لیے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ چہرے پر حد درجہ سنجیدگی تھی۔
وہ حیرت سے ساکت ہوا۔ کم از کم اُسے اپنی پوری زندگی میں یہ توقع نہیں کی ہوگی کہ کوئی لڑکی اسے یوں پرپوز کرے گی۔
”کیا تم مجھ سے شادی کرسکتے ہو؟؟“ واضح الفاظ میں پوچھا گیا۔ وہ ناں کہنا چاہتا تھا وہ اٹھ کر بھاگ جانا چاہتا تھا وہ اس پر دل کھول کر ہنسنا چاہتا تھا پر۔۔۔۔۔۔ کئی گڈمد جملے اُسکی سماعت سے ٹکرانے لگے۔ ہوا کے تھپیڑوں نے اسے بھی پیچھے دھکیلا۔
”بس کچھ وقت کے لیے۔۔“ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”دفع ہوجاؤ یہاں سے کبھی پلٹ کر نہ آنا۔ مجھے تم سے نفرت ہے۔۔۔“
ولیم نے سانس لینے کی کوشش کی۔ دم سینے میں ہی گھٹنے لگا۔
”وہ تمہارا ملک تھا جہاں میری بیٹی نے تمہارے باپ سے شادی کرلی تھی ایک عیسائی سے۔ تم یہاں کرکے دکھاؤ کسی مسلمان سے شادی۔۔۔۔“ کتنی تضحیک تھی۔ نفرت ہی نفرت تھی۔
ہارن بجاتی ایک گاڑی گزری اور وہ حال میں لوٹ آیا۔ ابلیس کے پروانے دونوں کی سماعت میں بدلے کی پھونک مار چکے تھے۔
”ولیم تم نے کسی مسلمان لڑکی سے شادی کی تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔“ مختلف لوگ، مختلف آوازیں پر نفرت ایک جیسی تھی۔
وہ دونوں زخمی تھے۔ دونوں اپنے اپنے ماں باپ سے بدلا چاہتے تھے اور بدلے کی اس آگ میں کودنے سے ذرا دریخ نہیں کرنے والے تھے۔ دونوں نے اپنا مطلب دیکھا۔
”ہاں میں تم سے شادی کرسکتا ہوں۔ مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔۔“ ٹھنڈے لہجے میں کہا گیا۔ فجر کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ دونوں اپنی دماغ میں چلتی جنگ لڑ رہے تھے۔
✿••✿••✿••✿